Maktaba Wahhabi

124 - 418
والی ہے۔ اسی وجہ سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نام بھی فاروق رکھا گیا۔ ابن عاشور رحمہ اللہ فرقان کے ساتھ قرآن کا تسمیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:قرآن کریم کو ’’فرقان‘‘ کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان کثرت کے ساتھ فرق اور امتیاز کرنے میں قرآن کریم سابقہ آسمانی کتابوں سے ممتاز ہے۔ بلاشبہ قرآن کریم اپنی ہدایت کو دلائل اور مثالوں سے تقویت دیتا ہے۔ توحید اور صفات الٰہیہ کے بیان پر مشتمل قرآن ہی حق وباطل کے مابین اس امتیاز کو سمجھنے کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ آپ تورات و انجیل میں اس بیان کی نظیر نہیں پاسکیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں۔‘‘[1] قرآن کریم زندگی کے مختلف مناہج (نظاموں) اورانسانیت کے مختلف ادوار میں تفریق کرنے والا ہے۔ وہ ایسا واضح منہج(نظامِ حیات) اوراسلوب زندگی متعین کرتا ہے جو ایسے کسی منہج سے مطابقت نہیں رکھتا جسے انسانیت اس سے پہلے جانتی تھی۔ اس وسیع و عظیم مفہوم میں وہ ’’فرقان‘‘ ہے۔ وہ ایسا فرقان ہے جس کی بدولت مادی خرق عادت (خلافِ فطرت ) و اقعات کے دور کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور عقلی معجزات کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ مخصوص علاقے اور مقررہ مدت تک محدود رسالتوں کا دور ختم ہوتا ہے اور رسالت عامہ کا دور شروع ہوتا ہے۔[2] فرمایا: ’’تاکہ وہ جہان والوں کے لیے ڈرانے والا بنے۔‘‘[3]
Flag Counter