Maktaba Wahhabi

230 - 418
کچھ سینوں میں چھپا ہو تا ہے اسے بخوبی جانتا ہے۔ شرعی عدل کی کئی شکلیں اور رنگ ہیں۔ اندھے، بہرے اور گونگے وضعی قوانین میں ہرگز یہ صلاحیت نہیں کہ وہ لوگوں کو عدل کی یہ مختلف صورتیں دکھا سکیں یا ان کے ذریعے سے لوگوں میں حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کر سکیں۔ پس ایسے قوانین میاں بیوی کے درمیان یا والدین اور ان کی اولاد کے درمیان یا اولاد اور ان کے والدین اور اسی طرح دیگر افراد کے مابین کس طرح عدل کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین،تاجراور صارف کے مابین اور کام کرنے والے اور کرانے والے کے مابین ان امور میں وضعی قوانین کے ججوں کا عدل کیاہو گا جن امور کا تعلق دلوں اور ضمیرسے ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ وضعی قوانین اپنی ذات میں ناقص، بے مایہ اور مفلس ہیں۔ ان قوانین میں اللہ تعالیٰ کی خشیت، ورع، تقویٰ، شبہا ت سے بچاؤ، نفس کے ذاتی محاسبے،ثوابِ جنت کی امید،عذابِ جہنم سے خوف کا کوئی تذکرہ ہے نہ اس سلسلے میں کوئی قانونی شق ہے۔ ان قوانین میں صرف وہی دفعات ہیں جن کا تعلق مظالم کی کھلی صورتوں سے ہے، مثلاً: یہاں معاملات کی متعدد صورتیں ایسی ہیں جو قرآنی شریعت میں حرام قرار دی گئی ہیں۔ شرعی فقہ میں ان کے لیے متعدد فروعی احکام ہیں لیکن اس فقہ میں ان کا قطعاً کوئی ذکر نہیں جسے ’’قانونی فقہ‘‘ ( Jurisprudence)کا نام دیا جاتا ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے صرف عدل ہی کا حکم نہیں دیتا ہے بلکہ اس نے قیامِ عدل میں مبالغے کا حکم دیا ہے،چنانچہ فرمایا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم انصاف کے لیے ڈٹ جانے والے اور اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، خواہ وہ تمھارے اپنے خلاف یا تمھارے والدین اور
Flag Counter