Maktaba Wahhabi

231 - 418
رشتے داروں کے خلاف ہو۔‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿قَوَّامِینَ﴾مبالغے کا صیغہ ہے یعنی تم سب سے بار بار (اَلْقِسطُ) ’’انصاف‘‘ کا صدور و قیام ہو، یہی عدل ہے۔‘‘[2] بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو شدید غصے اوربغض کی حالت میں بھی عدل ہی کا حکم دیا ہے اور ترکِ عدل سے ڈرایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔‘‘[3] امام زمخشری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اس آیت میں زبردست انتباہ کیا گیا ہے کہ کفار جو اللہ کے دشمن ہیں، ان سے بھی عدل کرنا واجب ہے۔ جب کافروں سے عدل کا معاملہ کرنے میں یہ شدت ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ وجوب عدل کاکیا عالم ہو سکتا ہے جو اللہ کے دوست اور اس کے محبوب ہیں۔‘‘ [4] بلاشبہ وضعی قوانین کی اصلیت اور نمایاں امتیازات ظلم اور بے جا طرف داری ہیں۔ ان نظاموں میں اس قانونی ظلم کے مظاہر و امثال درج ذیل ہیں: انسانی تاریخ کے دوران میں سب سے زیادہ مظالم عدل کے نام پر عدالت کے کٹہرے میں ہوئے ہیں، چنانچہ ایسے ایسے قوانین اور شریعتیں وضع کی گئی ہیں جو انسان کو ہلاکت کی وادیوں میں گرانے والی تھیں، حالانکہ ان کے بارے میں یہ زعم تھا کہ وہ عدل کو سچا کر دکھائیں
Flag Counter