Maktaba Wahhabi

393 - 418
کرے یا اس کی پابندی نہ کرے اور اسے نافذ کرنے کی پروا نہ کرے تو کیا وہ قانون اسے کوئی فائدہ پہنچائے گا یا ایسے شخص کا یہ رویہ قابلِ قبول ہو گا؟ یا ایک طبیب ہے جس نے طبی اُصولوں کا علم حاصل کیا، اُنھیں سمجھا اور خوب ازبر کیا، پھر وہ ان اصولوں سے ہٹ کر مریضوں کا علاج کرنے لگا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ جب یہ باتیں دنیا کے وضعی قوانین میں ملحوظ رکھی جاتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی کتاب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کی تلاوت کرنا، سننا اور اس کا مفصل مطالعہ ذریعۂ عبادت ہے؟ یہ عبادت اور اس پر مرتب ہونے والا اجر اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ساتھ ساتھ تعلیمات قرآنی پر عمل کا التزام نہ کیا جائے۔ مسلمان کا سورئہ نور مکمل طور پر حفظ کرنا اور اسے زانی اور تہمت لگانے والے کی سزا کا علم ہونا اس کے لیے ہرگز مفید نہیں ہو سکتا اگر وہ (نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا رہے۔ ایسی صورت میں کیا اس کا قرآن کریم حفظ کرنا اسے عبرتناک سزا سے بچا سکتا ہے؟[1] اب ہم اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سابقہ گفتگو سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم سیکھنے، اسے حفظ کرنے اور اس میں غور و فکر کرنے کا اولین مقصد اس پر عمل کرنا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا إِذَا تَعَلَّمَ عَشْرَ آيَاتٍ لَمْ يُجَاوِزْهُنَّ حَتَّى يَعْرِفَ مَعَانِيَهُنَّ وَالْعَمَلَ بِهِنَّ)) ’’جب ہم میں سے کوئی آدمی دس آیات سیکھ لیتا تھا تو اس وقت تک اس سے آگے نہیں بڑھتا تھا جب تک کہ اس کے معانی نہ جان لیتا اور ان کے مطابق عمل
Flag Counter