Maktaba Wahhabi

392 - 418
یہ ہے کہ رسالت مآب علیہ الصلاۃ والسلام قرآن کریم کے او امر و نواہی کا عملی نمونہ بن گئے تھے۔ قرآن آپ کی عادت اور آپ کا اختیار کردہ خُلق تھا۔‘‘[1] قرآن کریم اپنے اسرار اسی شخص پر عیاں کرتا ہے اور اسی کو فائدہ پہنچاتا ہے جو اس پر عمل کرتا ہے اور اس دنیا میں اس کے دلائل و مباحث کی تحقیق کے لیے اس کے مطابق متحرک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے شخص کے لیے قرآن اپنے اسرار کھولتا ہے نہ اسے فائدہ پہنچاتا ہے جو اسے صرف حصول تبرک کے لیے، فنی یا علمی تحقیق کے لیے یا صرف اسلوب بیان کی جستجو میں پڑھتا ہے۔ قاریٔ قرآن کو اپنی عملی زندگی میں قرآن کریم نافذ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی ہدایت سے رہنمائی لینے کی مناسبت ہی سے اجر و ثواب ملے گا۔ یہ کلیہ تو ناقص انسانی قوانین پر بھی لاگو ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے کلام کے لیے اسے کیوں نہیں ملحوظ رکھا جائے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ’’باطل اس کے پاس پھٹک بھی نہیں سکتا، اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے: ’’اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔‘‘[3] فرض کیجیے کسی شخص نے اپنے ملک کا قانون زبانی یاد کیا ہو لیکن وہ اس قانون کی مخالفت
Flag Counter