کے بارے میں وصیت کی نفی کی اور کتاب اللہ کے بارے میں وصیت کا اثبات کیا ہے۔ کتاب اللہ کی وصیت سے مراد یہ ہے کہ آپ نے کتاب اللہ میں جو کچھ ہے اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ ہی کی وصیت کرنے پر ا س لیے اکتفا کیا کہ وہ سب سے عظیم اور اہم ترین چیز ہے۔ مزید برآں اس میں ہر چیز کی وضاحت بطورنص یا بطور استنباط موجود ہے۔[1] کتاب اللہ کی وصیت کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کے الفاظ و معانی حفظ کیے جائیں، اس کا اکرام کیا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، اس کے ساتھ دشمن کی سر زمین کا سفر نہ کیا جائے، اس کے مندرجات کا اتباع کیا جائے، اس کے احکام پر عمل اور اس کے منع کردہ امور سے اجتناب کیا جائے، اس کی تلاوت اور تعلیم و تعلم پر مداومت اختیار کی جائے وغیرہ وغیرہ۔[2] اس بنا پر کتاب اللہ کی حفاظت کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ صرف قرآنی اوراق کو خزانوں میں محفوظ کر دیا جائے، کارنس پر سجا دیا جائے یا اسے سونے کا تعویز بنا کر سینوں پر لٹکا لیا جائے، یا دیواروں پر اس کی آیات آویزاں کر دی جائیں، بلکہ اس کی حفاظت کا مقصد ان مظاہر سے بہت بعید ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے سینوں میں اور اس کے الفاظ کو ان کی نازل کردہ شکل کے مطابق سطور میں محفوظ کیا جائے، نیز افراط و تفریط، بدعت، استہزا اور تمسخر سے دور رہتے ہوئے اس کے معنی مقصود کا صحیح ادراک کیا جائے۔ کتا ب اللہ کا ادب و احترام صرف اسے چومنے اور اسے اونچی جگہ پر رکھنے تک موقوف |
Book Name | قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے |
Writer | فضیلۃ الشیخ محمود بن احمد الدوسری |
Publisher | مکتبہ دار السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر |
Volume | |
Number of Pages | 418 |
Introduction |