Maktaba Wahhabi

410 - 418
جو شخص بلا سوچے سمجھے قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے، وہ ریڈیو کی طرح ہے جو قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے اور جن آیات کو وہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہا ہوتا ہے انھیں سمجھتا نہیں۔یہ بات قرآن کریم کے مقصد کے خلاف ہے۔ متعدد آیات اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ قرآن کریم اس لیے تلاوت کیا جاتا ہے کہ ہم اس میں غور و فکر کریں، اسے سمجھیں، عقل سے پرکھیں اور بصیرت حاصل کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اللہ اسی طرح تمھارے لیے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘[1] اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’اسی طرح ہم اپنی آیتیں کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘[2] مزید فرمایا: ’’بے شک ہم نے اسے عربی قرآن نازل کیا تاکہ تم سمجھو۔‘‘[3] جہاں تک اس آدمی کا تعلق ہے جس کے کان تو سنتے ہیں لیکن عقل نہیں سنتی، یا اس کی آنکھیں تو دیکھتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں دیکھتا، یا اس کی زبان تو کلام کرتی ہے لیکن اس کی سوچ اس کلام کی تہ تک نہیں پہنچتی تو وہ شخص بہرا، گونگا اور اندھا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
Flag Counter