Maktaba Wahhabi

411 - 418
’’اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں، پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں اگرچہ وہ نہ دیکھتے ہوں؟‘‘[1] اس آیت کریمہ میں اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ قرآن کریم کی محض تلاوت کرنا یا اسے سننا اصل مقصود نہیں بلکہ یہ تو مقصد تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہیں۔ یقینا مشرکین قرآن کریم کو بڑے غور کے ساتھ کان لگا کر سننے کے بعد واپس چلے جاتے تھے اور اللہ کا کلام ان کے جمے ہوئے ساکن عقائد میں کوئی تحریک پیدا نہیں کرتا تھا۔ اسی طرح آج کل بعض مسلمان کرتے ہیں۔ وہ روزانہ ریڈیوپر قرآن کریم کی تلاوت بڑے غور سے کان لگا کر سنتے ہیں، پھر اپنے اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاتے ہیں اور قرآن کریم ان کے جامد نظریات اور افعال میں کوئی تغیر اور تحریک نہیں پیدا کرتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ڈنڈی مارنے والا ڈنڈی مارنے والا ہی رہتا ہے اور جھوٹا شخص جھوٹا ہی رہتا ہے۔ سود خور اپنی سود خوریاں مسلسل جاری رکھتا ہے اور فاسق اپنے فسق و فجور میں پیہم مبتلا رہتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن کریم کی تلاوت سننا محض ایک رسمی عادت بن گئی ہے۔بعض مشرکین غور سے قرآن کریم سنتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی ہے کیونکہ وہ عقل رکھتے تھے نہ بصیرت اور نہ وہ اپنی مذموم خواہشات اور خطاؤں کو تبدیل کرتے تھے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور جلد ہی میں اپنی نشانیوں سے ان لوگوں (کی نگاہوں) کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں۔‘‘[3]
Flag Counter