Maktaba Wahhabi

94 - 418
اسی طرح جن کافروں نے آپ سے جنگ کے برعکس صلح و آشتی سے رہنا پسند کیا، وہ دنیا میں آپ سے معاہدہ کرکے آپ کے سائے اور ذمے داری میں رہے۔اس عہد کی بدولت وہ لڑنے والے کافروں کے مقابلے میں نسبتاً بہتر رہے۔ حتی کہ منافقین کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر رحمت سے فائدہ پہنچا۔ ان کے اظہارِ ایمان سے ان کی جان ،مال اور اہل و عیال سب کچھ محفوظ ہوگیا اور وراثت وغیرہ میں ان پر مسلمانوں والے احکام ہی لاگو ہوئے۔ یہ تو وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے، یعنی براہ راست کسی نہ کسی طریقے سے آپ کے آس پاس تھے۔ یہ لوگ یا تو آپ کے پیرو کار مومن تھے، یا آپ سے برسرِ پیکار ۔وہ آپ کے کھلم کھلا دشمن کافر تھے، یا صلح پسند کافر تھے جنھوں نے آپ سے جنگ کے بجائے معاہدۂ صلح کرکے امن و عافیت کے ساتھ رہنا پسند کیا، یا پھر وہ منافق تھے جنھوں نے صرف زبان سے ایمان کا اظہار کیا تھا جبکہ وہ مخلص اور سچے مسلمان نہیں تھے۔ ان سب کو مذکورہ طریقے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر رحمت سے فائدہ پہنچا۔ رہ گئے وہ لوگ جن کا براہ راست آپ سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ دور دراز کے دوسرے علاقوں اور ملکوں کے رہنے والے تھے، ان کو آپ کی رسالت سے یہ فائدہ پہنچا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت کی وجہ سے اہل زمین سے عذاب ِعام اٹھا لیا۔ یوں ساری دنیا کو آپ کی رسالت سے فائدہ پہنچا۔ ٭ دوسری صورت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے لیے رحمت ہیں۔ مومنوں نے اس رحمت کو قبول کیا اوراس سے دنیا و آخرت میں فائدہ اٹھایاجبکہ کفار نے اس رحمت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود وہ رحمت سے خارج نہیں ہوئے۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کہا جائے کہ ’’اس مرض کی یہ دوا ہے۔‘‘ اب اس مرض میں مبتلا مریض اگر یہ دوا استعمال نہیں کرے گا، تو کیا وہ دوا اس مرض کی دوا ہی نہیں رہے گی؟ وہ دوا تو بدستور اس مرض کی دوا رہے گی، چاہے کوئی مریض اسے استعمال کرے یا نہ کرے ۔استعمال کرے گا تو فائدہ اٹھائے گا، نہیں کرے گا تویقینا اس کا اپنا نقصان ہوگا، لیکن اس کے مسترد کرنے سے دوا کی تاثیر ختم نہیں ہوگی۔ علاوہ ازیں قرآن کریم میں ایسے کلمات اور ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں جن میں بلا تخصیص تمام انسانوں سے خطاب کیا گیا ہے۔ اس میں کسی قوم یا طبقے کی تخصیص ہے نہ زمان و مکان کی۔
Flag Counter