Maktaba Wahhabi

95 - 418
یہ اس امر کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ قرآن کا نزول پورے عالم کے لیے اوراس کے احکام ابد تک کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خطاب میں عموم ہے تخصیص نہیں،اطلاق ہے تقیید نہیں۔ اس میں تخصیص و تحدید اور تقیید بہت کم ہے جیسے محدود جگہوں، خاص زمانوں اور معین اشخاص کاذکر۔ جب بھی قرآنی بیان میں کسی خاص صفت کے تذکرے کی ضرورت پیش آتی ہے، تو قرآن ان میں بھی صفات عام کا اسلوب پسند کرتا ہے جیسے مومنین، متقین، صالحین، صابرین، کافرین، منافقین، غافلین، ظالمین، کاذبین وغیرہ، جس میں کسی خاص قوم یا طبقے کاذکر نہیں ہوتا، یعنی یہ نہیں ہوتا کہ حجازی لوگوں، مکی لوگوں یا مدنی لوگوں کا یہ کردار ہے وغیرہ۔ اس طرح الفاظ کا دائرہ تنگ ہوجاتا ہے،لہٰذا قرآن نے یہ انداز بیان اختیار نہیں کیا۔ بطور مثال آیاتِ افک، یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پربہتان تراشی سے متعلقہ آیات، پر غور کریں جو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے ہی میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں بہتان تراشوں کاذکر تو ہے لیکن اس میں کسی کے خاص نام، نسب یا قرابت وغیرہ کاذکر نہیں ہے۔ قرآن کے اسی انداز بیان سے کہ وہ اکثر و بیشتر اپنے دلائل و اطلاقات میں خصوص کے بجائے عموم کو پسندکرتا ہے، علمائے اصول وفقہ نے ان آیات کے بارے میں جو کسی خاص سبب سے نازل ہوئیں، یہ قاعدہ وضع کیا ہے کہ (اَلْعِبْرَۃُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لاَ بِخُصُوْصِ السَّبَبِ) ’’لفظوں کے عموم کا اعتبار ہوگا، نہ کہ خاص سبب کا‘‘ یعنی الفاظ کے اعتبار سے مفہوم و معنی میں جس قدر وسعت ہوگی، وہ معتبر ہوگی، اسے کسی ایک واقعے کے ساتھ (جس کی وجہ سے اس کا نزول ہوا ہو) مخصوص نہیں کیا جائے گا۔ قرآن عظیم کی عالمگیریت اس امر سے بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں قِصَص و اَمثال کے سلسلے میں جو فوائد بیان ہوئے ہیں، وہ ﴿ لِلنَّاس﴾ ’’لوگوں کے لیے‘‘ کے الفاظ میں معرّف باللام اور بصیغۂ جمع بیان ہوئے ہیں جو کُل کا مفہوم دیتے ہیں جیسا کہ ماہرینِ لغت ِعربی کے
Flag Counter