Maktaba Wahhabi

122 - 670
جب حائضہ کے یام عادت میں تقدیم و تاخیر اور زیادتی و نقص کی وجہ سے گڑ بڑ ہو جائے؟ سوال:جب عورت کی ماہواری میں تقدیم و تاخیر اور کمی و زیادتی کی وجہ سے گڑ بڑ ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ جواب:اس سلسلہ میں جو علمائے حنابلہ نے ذکر کیا ہے کہ عورت اپنے ایام کو دوبارہ خون آنے تک موکد نہ سمجھے ۔یہ درست نہیں ہے ،لوگوں کا ہمیشہ اس صحیح قول پر عمل رہا ہےجس کا ذکر صاحب "الانصاف "نے کیا ۔اور عورتوں کے لیے اس پر عمل کرنے کے سواکوئی چارہ نہیں اور وہ یہ ہے کہ جب عورت خون دیکھے تو وہ نماز اور روزہ سے رک جائے اور جب واضح طہارت دیکھے تو غسل کرکے نماز پڑھے ۔ چاہے اس کا خون عادت کے ایام سے پہلے آئے یا بعد میں آئے اور چاہے زیادہ مقدار میں زیادہ ایام تک آئے۔ مثلاً ایک عورت کی عادت پانچ دن خون آنے کی ہے وہ اگر سات دن تک خون دیکھے تو وہ سات دن ہی حیض شمار کرے اور اگلے ماہ سات دن خون آنے کا انتظار نہ کرے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیویوں کا عمل اسی پر رہا اور ان کے بعد تابعین کا حتی کہ جن مشائخ سے ہماری ملاقات ہوئی وہ بھی اس کا فتوی دیتے تھے، اس لیے کہ حیض کا خون اور اس کی مدت معلوم کرنے کے لیے تین مہینوں تک خون آنے کا انتظار کرنے والا قول بلا دلیل ہے بلکہ خلاف دلیل ہے، نیز صحیح قول میں حیض کی عمر بھی متعین نہیں ہے ،چاہے عورت نوسال سے کم عمرکی ہو یا پچاس سال سےتجاوز کر گئی ہو۔ جب بھی اس کو خون آئے اور جب تک آتا رہے وہ ان ایام میں حائضہ شمار ہو کر (نماز روزہ سے)بیٹھے رہے گی کیونکہ یہی اصل ہے اور استحاضہ عارضی چیز ہے۔ (فضیلۃ الشیخ عبدالرحمٰن السعدی رحمۃ اللہ علیہ ) جب عورت کو ایام عادت سے زائد خون حیض آئے؟ سوال:ایک عورت کو چھ دن حیض آتا تھا، پھر اس کے ایام عادت میں اضافہ ہو گیا۔ وہ کیا کرے؟ جواب:اس عورت کی عادت اگر چھ دن کی ہے، پھر یہ مدت طویل ہو کر نویادس یا گیارہ دن ہو گئی تو یہ عورت پاک ہونے تک نماز ادانہیں کرے گی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی حد متعین نہیں فر مائی ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter