Maktaba Wahhabi

268 - 670
"وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا " [1] "اور پانی دماغ تک لے جانے میں مبالغہ کر مگر جب تو روزے سے ہو۔" پس اس مبالغہ کرنے سے روزے دار کو مستثنیٰ کیا گیا تاکہ کہیں پانی اس کے حلق یا معدے میں پہنچ کر اس کے روزے کو فاسد نہ کردے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ جو چیز بھی روزے دار کے اختیار سے معدے میں پہنچ جائے وہ روزے کو توڑ دیتی ہے۔ اورجن علماء نے ان اشیاء کے استعمال سے روزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا،جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہمنوا،انھوں نے ان چیزوں کو کھانے پینے پر قیاس کرنے کو درست قرار نہیں دیا ہے کیونکہ ادلۂ شرعیہ میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو یہ تقاضا کرتی ہو کہ ہر وہ چیز جو دماغ یا بدن تک پہنچ جائے یا جسم کے کسی بھی راستے سے پیٹ میں پہنچ جائے وہ مفطر ہے۔اور جب ان اوصاف میں سے کسی وصف کا افطار صائم کے حکم کی علت ہونا کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہے کہ شرعاً اس علت پر حکم کو معلق کیا جائے اور اس کو حلق یا معدہ تک پہنچنے والی اشیاء کے مشابہ قرار دے کر روزے کے فاسد ہونے کا حکم لگایا جائے تو یہ قیاس کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟چاہے وہ اشیاء منہ کے راستے سے داخل ہوں یا ناک کے راستہ سے کیونکہ یہ دونوں محض راستے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صرف کلی اور بلا مبالغہ استنشاق سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔اور نہ ہی شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔اور منہ کا ایک راستہ ہونا تو یہ ایک علت طردی ہے جس کاکوئی اثر نہیں ہے۔اسی لیے جب پانی یا اس جیسی کوئی اور چیز ناک کے راستے سے داخل ہوتو اس کا حکم منہ کے راستے سے داخل ہونے والی چیز کا ہوگا،پھر بعض اوقات ناک کے راستے کو غذا داخل کرنےکے لیے بھی استعمال کیا جاتاہے ،لہذا منہ اور ناک دونوں برابر ہوئے۔ لہذا جو بات درست معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ناک کے راستے سے استعمال کی جانے والی دوائی سے روزہ نہیں ٹوٹتا،جیسے کہ پہلے ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ کسی لحاظ سے بھی کھانے پینے کے حکم میں داخل نہیں ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
Flag Counter