Maktaba Wahhabi

358 - 670
نیز اس نے گواہوں پر اس معاملہ میں پردہ ڈالا،ان کو باطل عقد میں ملوث کیا اور باطل نکاح کیا،لہذا جمہور علماء فرماتے ہیں:بغیر ولی کے نکاح باطل ہے اور ایسا کرنے والے کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ا قتداء کرتے ہوئے وہ تعزیر کا حکم سناتے ہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے بلکہ علماء کاایک گروہ اس پر رجم وغیرہ کی حد لگاتے ہیں۔اور جس نے مطلق طور پر یا مدینہ میں بغیر ولی کے نکاح کو جائز قرار دیا،اس نے بھی اس طرح کے جھوٹےنسب کا دعویٰ کرنے اور باطل ولی بنانے کی صورت میں جائز قرار نہیں دیا،لہذا ایسے شخص کی سزا پر مسلمانوں میں اتفاق ہے۔ نیز مذکورہ عورت کو اس کی کذب بیانی پر بھی سزا ملنی چاہیے، اسی طرح اس کے اس دعوے پر کہ اس کا خاوند تھا اور اس نے اس کوطلاق دی ہے۔اورخاوند کو بھی سزا ملنی چاہیے اور ایسے ہی اس شخص کو بھی جس نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عورت کا بھائی ہے اس کو ان جرموں پر سزا دی جائے۔ اور ان کو جھوٹی گواہی پر سزا دی جائے جو انھوں نے اس عورت کی نسبت اور اس کی شادی اور طلاق کی نسبت اور اس کے ولی کے حاضر نہ ہونے کے متعلق جھوٹی گواہی دی ہے کیونکہ وہ اس لائق ہیں کہ ان کی سزا میں خوب مبالغہ کیاجائے۔بلاشبہ فقہاء نے جھوٹے گواہ کا منہ کالا کرنے کی دلیل پکڑی ہے اس سے جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ اس کا چہرہ سیاہ کیا کرتے تھے،یہ اشارہ کرتے ہوئے کہ اس کے چہرے کی سیاہی اس کے جھوٹ کی وجہ سے ہے،اور وہ اس کو پیچھے کی طرف منہ کرکے سواری(گدھے وغیرہ) پر الٹا سوار کرتے تھے یہ اشارہ کرتےہوئے کہ اس نے اصل بات کو الٹا کیا ہے اور اس کو شہر میں گھماتے تھے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ جھوٹا گواہ ہے۔ ان لوگوں کو تعزیر لگانا حاکم کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ حاکم ،محتسب اور دیگر ولاۃ امور،جو یہ تعزیر لگانے کا اختیار رکھتے ہیں،بھی یہ تعزیر لگاسکتے ہیں۔اور یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ ان حالات میں،جن میں عورتوں کا فساد اور اور بہت سی جھوٹی گواہیاں دلوائی گئیں،ایسے ہی ہونا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter