Maktaba Wahhabi

360 - 670
بیٹی اور داماد کو اپنے پاس ٹھہرانے کا حکم: سوال:صورت حال یہ ہے کہ بعض علاقوں میں جب کوئی نوجوان کسی خاندان میں شادی کے لیے آتاہے تو بچی کاوالد بہت زیادہ حق مہر کی شرط لگاتا ہے۔اور جب شادی پر مکمل اتفاق ہوجاتاہے اور نوجوان کی شادی ہوجاتی ہے تو بچی کاوالد انکار کردیتاہے کہ اس کا شوہر اس کو اپنے گھر لے جائے۔باپ ایسا اس لیے کرتاہے تاکہ اس کی بچی اسی کی خدمت میں رہے،حالانکہ وہ اس سے سخت تکلیف محسوس کرتی ہے۔اب کیا وہ اپنے خاوند کے گھر جائے یااپنے باپ کے گھر رہے؟یقیناً اس سے بہت سی مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔میں جناب سے توقع رکھتا ہوں کہ آپ اس مسئلہ میں لوگوں کی صحیح راہنمائی کریں گے۔ جواب:بلاشبہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے لیے حق مہر کے مسئلہ میں آسانی اور میانہ روی کو مشروع فرمایاہے ،اسی طرح ولیمے کا معاملہ ہے ،تاکہ ہر ایک کے لیے آسانی اور سہولت کے ساتھ شادی کرانا ممکن ہوسکے اور تاکہ اس کے ذریعہ بھلائی پر تعاون ہوتو بقدر طاقت خرچ کرکے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پاک دامنی کی راہ پر ڈالا جاسکے۔ اس مسئلہ پر خیر خواہی اور حق کی تلقین کی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے ہم کئی بار لکھ چکے ہیں۔اور اس موضوع پر مجلس کبار علماء کی طرف سے کئی قراردادیں اور سفارشات بھی جاری ہوچکی ہیں،جن کامضمون یہ تھا کہ حق مہر میں تخفیف اور نرمی کی ترغیب دینا اور ولیمے کرنے میں تکلف سے کام نہ لینا اور معاشرے کو اس چیز کی رغبت دلانا جو نوجوانوں کے لیے حصول نکاح کو آسان کردے۔یقیناً میں بھی اسی مناسبت سے اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو اس مسئلہ میں تعاون اور اس کی تلقین کرنے کی وصیت کرتا ہوں تاکہ نکاح کثرت سے ہوں اور بے حیائی کم ہو اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت اور نگاہوں کو پست رکھنا آسان ہوجائے۔اس کے لیے نکاح تمام اسباب سے بڑا معاون سبب ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ
Flag Counter