Maktaba Wahhabi

59 - 670
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طہارت کے بعد بچے ہوئے پانی سے وضو کیا"میں تطبیق ہو سکے۔(سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمۃ اللہ علیہ ) عورت کی طہارت کے بعد بچے ہوئے پانی کا حکم: سوال:مرد کا عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنا صحیح قول کے مطابق کیسا ہے؟ جواب:اس مسئلہ میں(علماء کا) اختلاف مشہور ہے۔اور جمہور علماء کامذہب ،جس کی تائید امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دو قولوں میں سے ایک قول میں فرمائی،یہ ہے کہ عورت،خواہ تنہا پانی استعمال کرے یامرد کے ساتھ مل کر اور خواہ اس نے طہارت حدث سے حاصل کی یا پلیدی وناپاکی لگنے سے،جمیع حالات میں مرد عورت کے باقی ماندہ پانی سے طہارت حاصل کرسکتا ہے۔اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔اور بلاشبہ یہ حدیث منع کی حدیث کہ" مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل نہ کرے۔"سے زیادہ صحیح ہے اور بہت سے اہل علم منع والی حدیث کی صحت کے قائل بھی نہیں ہیں،لہذا ایسی روایت کو حجت بنانا صحیح نہیں ہے۔اور پھر جمہور کے اس قول کی تائید ان عمومی دلائل سے بھی ہوتی ہے جو بلا قید پانی سے طہارت حاصل کرنے کے سلسلہ میں وارد ہیں۔تو ہر وہ پانی جس کو نجاست نے تبدیل نہ کیا ہو وہ عام پانی کے حکم میں داخل ہے۔نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا" (النساء:43) "جب تمھیں پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔" اس آیت میں پانی کی عدم دستیابی کی صورت میں تیمم کو مباح قرار دیا گیا ہے اور یہ عورت کا بچا ہوا پانی بہرحال پانی ہے اور شارع کسی چیز سے بغیر سبب کے منع نہیں فرماتے۔اور یہ پانی جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"(إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ)" [1]پانی پلید نہیں ہوتا"اس کی طہارت پر دلالت کرتاہے۔اگر مرد کے لیے عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل کرنا ناجائز ہوتاتوصحیح احادیث ضرور وارد ہوتیں جو اس کے منع پر دلالت
Flag Counter