Maktaba Wahhabi

60 - 670
کرتیں،کیونکہ لوگ عام طور پراس میں مبتلا ہوتے تھے اور پھر اس میں مرد کے لیے مشقت بھی ہے۔لہذا ثابت ہواکہ یہی جواز والا قول صحیح ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول،جو متاخرین کے ہاں زیادہ مشہور ہے،یہ ہے کہ مرد عورت کے تنہا حدث سے پاکی حاصل کرنے کے بعد بچے ہوئے پانی سے طہارت حاصل نہیں کرسکتا جبکہ وہ روایت جس سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے اس مسئلہ کی دلیل بننے کے لائق نہیں ہے،اس لیے کہ وہ ضعیف ہے اور صحیح دلائل کی مخالف ہے، نیز ان کے پاس اس قید کی بھی کوئی دلیل نہیں کہ مرد صرف اس پانی سے طہارت حاصل نہیں کرسکتا جو عورت کے حدث سے پاکی حاصل کرنے کے بعد بچ گیا ہو۔(علامہ عبدالرحمان السعدی رحمۃ اللہ علیہ ) نالوں کے ان پانیوں کا حکم جن میں کیمیائی مواد کی آمیزش ہوجاتی ہے: سوال:نالوں کے ان پانیوں کا کیا حکم ہے جن کے ساتھ کیمیائی مواد مل جاتا ہے اور ان کے ساتھ کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔وہ پانی اگر کپڑے کو لگ جائے تو کیا وہ کپڑا پلید ہوجاتاہے؟ایسے پانیوں سے وضو کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:نجس پانی جب تحلیل ہوجائے اور اپنی حقیقت سے نکل جائے تو وہ دوسری حقیقت کے حکم میں آجاتا ہے وہ اس وقت تک نجس اور پلید نہیں ہوتا جب تک کسی نجاست کی وجہ سے اس کے اوصاف ثلاثہ:رنگ،بو اور ذائقہ نہ بدل جائیں۔پاک پانی کا رنگ،بو اورذائقہ نہیں ہوتا۔اس میں قاعدہ وہ ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے: (( الْمَاءُ طَهُورٌ، لاَ يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ)) [1] "پانی پاک ہے،اسے کوئی چیز پلید نہیں کرتی۔" اور یہی وہ قاعدہ ہے جو تلقین و الی حدیث کا فیصلہ کرتا ہے،پس جب پانی دو قلوں سے کم ہو اور اس میں نجاست گر جائے اور وہ پانی کی حقیقت کو بدل دے تو پانی پلید ہوجائے گا اگرچہ وہ دو قلوں سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔(علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ )
Flag Counter