Maktaba Wahhabi

170 - 532
جو شخص اللہ تعالیٰ سے سچی نیت کے ساتھ شہادت مانگتا ہے،اللہ اسے شہیدوں کے مراتب تک پہنچاتا ہے خواہ اس کی موت اس کے بستر پر ہی ہو۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر فضل و احسان پر دلالت کرتی ہے،اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا: ’’لقد ترکتم بالمدینۃ أقواماً ما سرتم مسیراً ولا أنفقتم من نفقۃٍ ولا قطعتم من وادٍ إلا وھم معکم فیہ‘‘،قالوا:یا رسول اللّٰه کیف یکونون معنا وھم بالمدینۃ؟ فقال:’’حبسھم العذر‘‘[1]۔ تم مدینہ میں کچھ ایسے لوگوں کو چھوڑ کرآئے ہو کہ تم جس راستے سے بھی گزرتے ہویا جو کچھ بھی خرچ کرتے ہویا جو بھی وادی طے کرتے ہو وہ اس میں تمہارے ساتھ ہوتے ہیں،صحابہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول جب وہ مدینہ میں ہیں تو ہمارے ساتھ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہیں عذر نے روک رکھا ہے۔ نیک نیتی کے سبب اللہ تعالیٰ معمولی عمل بھی گنا در گنا کر دیتا ہے،چنانچہ لوہے(ہتھیار)سے لیس ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں قتال(جہاد)کروں یا اسلام لاؤں؟آپ نے فرمایا:پہلے اسلام لاؤ پھر جہاد کرنا‘ اس نے اسلام قبول کیا اور پھر(اللہ کی راہ میں)لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوگیا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا:’’عمل قلیلاً وأجرکثیراً‘‘ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر سے نوازا گیا[2]۔ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوا‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے
Flag Counter