Maktaba Wahhabi

188 - 532
کی روشنی میں باطل اور رائیگاں ہے۔ (3)اصل عمل تو خالص اللہ کے لئے ہو‘ پھر عبادت کے دوران اس میں ریاکاری کی نیت شامل ہوگئی ہو،تو ایسی عبادت دو حالتوں سے خالی نہیں: (الف)یہ کہ عبادت کے ابتدائی حصہ کا آخری حصہ سے ربط نہ ہو،ایسی حالت میں عبادت کا ابتدائی حصہ ہر صورت میں صحیح اور آخری حصہ ہرصورت میں باطل ہے‘ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک انسان کے پاس بیس ریال تھے جنھیں وہ صدقہ کرنا چاہتا تھا‘ توان میں سے دس ریال تو اس نے خالص اللہ کے لئے صدقہ کئے ‘ پھر بقیہ دس ریالوں میں ریاکاری شامل ہوگئی‘ تو پہلا صدقہ مقبول ہے اور دوسرا صدقہ باطل،کیونکہ اس میں اخلاص کے ساتھ ریاکاری شامل ہوگئی ہے۔ (ب)یہ کہ عبادت کے ابتدائی حصہ کا آخری حصہ سے ربط اور تعلق ہو‘ ایسی صورت میں وہ انسان دو حالتوں سے خالی نہیں: پہلی حالت:یہ ہے کہ ریا کاری اس کے دل میں کھٹکی ہو پھر اس نے اسے دفع کردیا ہواور اس کی طرف التفات نہ کیا ہو،بلکہ اس سے اعراض اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہو‘ اس صورت میں بلا اختلاف ریاکاری سے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے گا‘ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’إن اللّٰه تجاوز لأمتي ما حدثت بہ أنفسھا ما لم یتکلموا أو یعملوا‘‘[1]۔ بیشک اللہ عزوجل نے میری امت کے دلوں میں کھٹکنے والی چیزوں کو معاف کردیا ہے‘ جب تک کہ وہ اسے کہہ نہ دیں یا اس پر عمل نہ کرلیں۔ دوسری حالت:یہ ہے کہ ریاکاری اس کے ساتھ بدستور لگی رہے اور وہ اس سے مطمئن ہو ‘ اسے دفع بھی نہ کرے بلکہ اس سے خوش ہو،ایسی حالت میں صحیح رائے کے مطابق اس کی پوری عبادت باطل اور ضائع ہو جائے گی ‘ کیونکہ اس کا ابتدائی حصہ آخری حصہ سے مربوط ہے[2]۔
Flag Counter