Maktaba Wahhabi

332 - 532
نیز ارشاد ہے: ﴿بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ(١١٢)﴾[1]۔ سنو! جو بھی اپنے آپ کو اخلاص کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکا دے،اور وہ نیکو کار(متبع سنت)بھی ہو،تو بلا شبہہ اسے اس کا رب بھر پور بدلہ دے گا،اس پر نہ تو کوئی خوف ہوگا نہ ہی آزردگی و اداسی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’ إنما الأعمال بالنیات۔۔الخ ‘‘(اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔۔۔)باطنی اعمال کی کسوٹی ہے،جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ’’من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو ردٌ ‘‘(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)ظاہری اعمال کامیزان ہے،اس طرح یہ دونوں حدیثیں دین اسلام کے اصول وفروع،ظاہر وباطن،اور اقوال و افعال کو سمیٹنے والی انتہائی عظیم الشان حدیثیں ہیں[2]۔ اما م نووی رحمہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر بڑی عمدہ گفتگو کی ہے،فرماتے ہیں:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردٌ ‘‘(جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں،تو وہ مردود ہے)،اور دوسری روایت ’’من عمل عملاً لیس علیہ أمرنافھو ردٌ ‘‘(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)اہل عرب کے نزدیک ان دونوں روایتوں میں ’’ردٌ ‘‘ مردود کے معنی میں ہے،جس کے معنی باطل اور غیر مقبول کے ہیں۔ یہ حدیث اسلام کے قواعد میں سے ایک عظیم الشان قاعدہ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے ہے،نیز دین اسلام میں ایجاد کردہ تمام بدعات و مخترعات کی تردید میں دو ٹوک ہے۔اور دوسری روایت میں بایں معنی تھوڑی سی زیادتی ہے کہ بسا اوقات کسی سابقہ ایجاد کردہ بدعت پر عمل کرنے والے بعض معاندین پہلی روایت کے پیش نظر اگر یہ حجت قائم کریں کہ ہم نے تو کوئی بدعت ایجاد نہیں کی،تو جواباً اس پر دوسری
Flag Counter