Maktaba Wahhabi

361 - 532
قائل ہیں،البتہ پہلی تعریف کی روشنی میں یہ بدعت نہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ ایک شیء کو ترک کرنے یا اس کی حرمت کا عقیدہ رکھنے کے سبب وہ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والا شمار ہوگا،اور گناہ کا مستحق قرار پا ئے گا،اور خلاف ورزی کا گناہ عمل متروک کے درجۂ وجوب و استحباب پر مبنیٰ ہوگا۔ ہاں اگر ترک عمل دینی نقطہ ٔ نظر سے ہو تو وہ دین میں بدعت شمار ہوگا،چاہے عمل ِ متروک مباح ہو،یا واجب،اور خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو،یا معاملات سے،یا عادات سے،نیز قول سے ہو یا فعل سے،یا اعتقاد سے،اگر اس کے ترک سے اللہ کی عبادت مقصود ہوگی تو ایسا کرنے سے وہ بدعتی شمار ہوگا[1]۔ ایسے امور میں ترک عمل بدعت قرار پانے کی دلیل ان تین افراد کا واقعہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق دریافت کرنے کے لئے ازواج مطہرات کے گھر آئے تھے،اور جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے اپنے لئے اتنی عبادت کو بہت کم سمجھا،اور کہا:’’کہاں ہم اور کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں،چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا:’’میں توہمیشہ رات بھرنماز پڑھتا رہوں گا‘‘دوسرے نے کہا:’’میں زندگی بھرروزہ رکھوں گاکبھی ناغہ نہ کروں گا‘‘،تیسرے نے کہا:’’میں عورتوں سے الگ ہو جاؤں گا اور کبھی شادی ہی نہ کروں گا‘‘،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ’’أنتم الذین قلتم کذا وکذا؟ أما واللّٰه إني لأخشاکم للّٰه،وأتقاکم لہ؛ لکني:أصوم وأفطر،وأصلي وأرقد،وأتزوج النسائ،فمن رغب عن سنتي فلیس مني‘‘[2]۔ کیا تم ہی لوگوں نے ایسی ایسی بات کہی ہے؟ سن لو اللہ کی قسم میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں،اور تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہوں،لیکن اس کے باوجود میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں،نماز بھی پڑھتا ہوں،سوتا بھی ہوں،اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں،تو جس نے میرے طریقہ سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔
Flag Counter