Maktaba Wahhabi

395 - 532
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر کسی اور کو قیاس نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں منقول نہیں ہے کہ آپ نے اپنے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے یا ان کے علاوہ کسی اور کی ذات سے حصول برکت کا حکم دیا ہو،اور نہ ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہیں منقول ہے کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے برکت حاصل کی ہو،نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور نہ ہی وفات کے بعد،چنانچہ نہ تو صحابۂ کرام نے صحابہ سابقین اولین(مہاجرین وانصار)کے ساتھ ایسا کیا،نہ ہی ہدایت یا فتہ خلفائے راشدین کے ساتھ اور نہ ہی عشرہ مبشرہ بالجنۃ(وہ دس جلیل القدر صحابۂ کرام جنھیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی گئی)کے ساتھ۔ امام شاطبی فرماتے ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی صحابۂ کرام میں سے کسی سے اپنے سے سابق صحابۂ کرام کے تعلق سے ایسی چیز کا صدور نہ ہوا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد امت میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل کسی کو نہ چھوڑا،چنانچہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے خلیفہ تھے،لیکن آپ کے ساتھ ایسا کوئی عمل نہیں کیا گیا،اور نہ ہی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں،پھر اسی طرح عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ اورپھر علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کہ امت میں ان سے افضل کوئی نہیں،ان تمام چیزوں کے باوجود ان میں سے کسی ایک سے بھی صحیح معروف سند سے ثابت نہیں کہ کسی تبرک حاصل کرنے والے نے ان تمام صورتوں میں سے کسی بھی صورت میں تبرک حاصل کیا ہو[1]۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علماء کرام کے علم سے فائدہ اٹھانا،ان کے وعظ و نصیحت اور دعاؤں کو سننااور ان کے ساتھ رہ کر مجالس ذکر کی فضیلت حاصل کرنا انتہائی خیر وبرکت کا سبب اور نہایت مفید شئے ہے،لیکن ان کی ذات وشخصیات سے تبرک کا حصول نہیں کیا جا ئے گا۔بلکہ صرف ان کے صحیح علم پر عمل کیا جائے گا،اور ان میں جو اہل سنت وجماعت کے منہج پر عامل ہوں ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے گی [2]۔
Flag Counter