Maktaba Wahhabi

99 - 532
تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ:’’ظلم دو گناہوں پر مشتمل ہے:ایک ناحق غیر کامال ہڑپ کرنا،اور دوسرا رب سبحانہ وتعالیٰ سے اس کی مخالفت کا اعلان کرنا،اور ظلم کی معصیت سب سے سنگین ہے،کیونکہ عام طور پر ظلم کمزور شخص پر ہی ہوتا ہے جسے بدلہ کی طاقت نہیں ہوتی،اور ظلم دل کی ظلمت سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگر دل ہدایت کے نور سے منور ہو تو عبرت و موعظت سے ہمکنار ہوتا ہے،چنانچہ جب متقی حضرات تقویٰ کے سبب حاصل شدہ اپنے نور کی روشنی میں دوڑیں گے تو ظالم کو ظلم کی تاریکی اپنے گھیرے میں لے لے گی اور اس کا ظلم اسے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچائے گا‘‘[1]۔ اور فرمان نبوی’’اتقوا الشح،فإن الشح أھلک من کان قبلکم‘‘۔ ایک جماعت نے کہا ہے کہ’’شح‘‘ بخل سے شدید تر اور ہاتھ روکنے(نہ دینے)میں بخل سے بڑھ کر ہے،اور کہا گیا ہے کہ’’شح‘‘ لالچ کے ساتھ بخالت کا نام ہے،اور کہا گیا ہے کہ’’شح‘‘ اس چیز کی لالچ کانام ہے جو اپنے پاس نہ ہو جبکہ’’بخل‘‘ اپنے پاس موجود مال سے نہ نکالنے کا نام ہے[2]۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں: 1- شرک کا ظلم۔ 2- گناہوں کا ظلم۔ 3- نفس کا ظلم۔ اور اس سے واضح الفاظ میں دو قسمیں ہیں:ایک بندے کا اپنے نفس پر ظلم کرنا،اور اس کی دو قسمیں ہیں:شرک کا ظلم اورگناہوں کا ظلم،اور دوسرا بندے کا کسی دوسرے پر ظلم کرنا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی توفیق دہندہ ‘ مددگار اور راہ راست کی رہنمائی کرنے والا ہے۔
Flag Counter