Maktaba Wahhabi

204 - 211
لیے پیسے نہیں ملتے تو وہ چوری چکاری پر اتر آتے ہیں اور نت نئی چیزیں چُرا کر اپنے والدین کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ انھیں فلاں دوست نے یہ ہدیہ دیا ہے یا یہ چیز فلاں جگہ گری ہوئی ملی۔ماں باپ اس آرزو کے ساتھ یہ ’’ہدیے اور تحفے‘‘ قبول کرلیتے ہیں کہ اللہ کرے کہ ہدیوں کا یہ سنہرا دور ہمارے لال پر ہمیشہ جاری و سدا بہار رہے، لیکن ان کی یہ خوش گمانیاں اس وقت خاک میں مل جاتی ہیں جب انھیں کسی پولیس اسٹیشن سے یہ خبر ملتی ہے کہ ان کا لال پولیس حوالات میں ’’سرکاری مہمان‘‘ بنا ہوا ہے، اس وقت وہ اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو فضول خرچی سے محفوظ رکھنے کے لیے خود بھی فضولیات سے دور رہیں، کیونکہ اسراف و تبذیر سے تنگی پیدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا﴾[بني إسرائیل:۲۹] ’’تم اپنا ہاتھ(بخیلی سے)اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ(فضول خرچی سے)اسے بالکل ہی کھول دو کہ پھرلوگوں کی ملامت کے مستحق ہوکر عاجز اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس آیت میں انفاق کا ادب و طریقہ بیان کیا جا رہا ہے کہ انسان نہ بخل کرے کہ اپنے اہل وعیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی پر اتر آئے کہ گنجایش دیکھے بغیر ہی بے دریغ خرچ کرتا رہے۔بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان قابلِ ملامت و مذمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں تھکا ہارا اور پچھتانے والا بن جائے گا۔[1]
Flag Counter