Maktaba Wahhabi

55 - 211
نے کہا:’’شہاب‘‘(شعلہ)ہے۔پوچھا:کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ کہا ’’حرقہ‘‘(حرارت)سے۔پوچھا:کہاں کے باشندے ہو؟ کہا:’’حرۃ النار‘‘(سیاہ کنکریلی جھلسی ہوئی زمین)کا۔فرمایا:یہ کون سے علاقے میں ہے؟ کہنے لگا:’’ذاتَ لظیٰ‘‘(آگ کی لپیٹ)میں۔آپ رضی اللہ عنہ نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: ((أَدْرِکْ أَھْلَکَ فَقَدْ ھَلَکُوْا وَاحْتَرَقُوْا)) ’’تم فوراً اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچو، اس لیے کہ وہ ہلاک ہوگئے اور جل گئے ہیں۔‘‘ جب وہ اپنے علاقے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ جیسا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا، ویسا ہی حادثہ پیش آگیا ہے۔ ٭ ایسے نام بھی نہیں رکھنا چاہیے، جن کے معانی تو صحیح ہوں، لیکن اگر ان کی غیر موجودگی میں یہ کہہ دیا جائے کہ ’’وہ نہیں ہے‘‘ تو آدمی کو بُرا لگے اور ایک طرح کی بدشگونی ہو جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ((لَا تُسَمِّیَنَّ غُلَامَکَ یَسَاراً وَّلَا رَبَاحاً وَلَا نَجَاحاً(نَجِیْحاً)وَلَا أَفْلَحَ(وَلَا نَافِعاً)فَإِنَّکَ تَقُوْلُ:أَ ثَمَّ ہُوَ؟ فَلَا یَکُوْنُ، فَیَقُوْلُ:لَا))[1] ’’تم اپنے بچے کا نام یسار(آسان)رباح(فائدہ)نجاح(کامران)اور افلح(کامیاب)نافع(نفع آور)نہ رکھا کرو، کیونکہ جب تم کسی سے یہ پوچھو گے کہ کیا وہ موجود ہے؟ اگر وہ موجود نہ ہوا تو وہ تمھیں جواب دے گا کہ(نہیں ہے)۔‘‘
Flag Counter