Maktaba Wahhabi

385 - 418
اس کی زبان سے جاری ہونے والے کلمات نافذ ہونے لگے اور معاشرہ اس کی رائے کو کان لگا کر سننے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے عالم اور حافظ کے مقام و مرتبہ اور فضیلت سے اچھی طرح واقف تھے، اسی لیے انھوں نے حضرت نافع رضی اللہ عنہ کے اس انتخاب کو برقرار رکھا، اس کی توثیق فرمائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد کیا: ((إِنَّ اللّٰهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ)) ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے بہت سی قوموں کو بلند مقام پر فائز کرے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل و خوار کرے گا۔‘‘[1] ٭ حافظ قرآن امامت کا زیادہ اہل اور حق دار ہے: حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((يَؤُمُّ القومَ أقرؤُهم لكتابِ الله)) ’’قوم کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں کتاب اللہ کا زیادہ اچھا قاری ہے…۔‘‘[2] یہ حافظ قرآن کی فضیلت کے مقامات میں سے دوسرا مقام ہے کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے والے تمام لوگوں سے مقدم ہے۔ ٭ حافظ قرآن باہمی مشورے میں مقدم ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((كَانَ القُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ، كُهُولاً كانُوا أوْ شُبَّاناً)) ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس مشاورت کے شرکاء قاری صاحبان ہوتے تھے، چاہے وہ
Flag Counter