Maktaba Wahhabi

278 - 322
۳: پیٹرک جے۔ بوکینن نے لکھا ہے: ’’۱۹۵۰ء میں طلاق باعثِ رسوائی تصور کی جاتی تھی، شادی کے بغیر اکٹھے رہنا [گوری گندگی] کا طریقہ زندگی شمار کیا جاتا تھا، اسقاطِ حمل قابلِ نفرت تھا اور ہم جنس پرستی کا نام لینے کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا، لیکن آج نصف شادیاں طلاق سے ختم ہوتی ہیں، زندگی [دوستیوں] کے گرد گھومتی ہے۔ وہ [محبت] جس کا نام لینے کی کوئی جرأت نہ کرتا تھا، اب اس سے کوئی اپنا منہ بند نہیں کرتا۔‘‘[1] ۴: امریکہ میں جنوری ۲۰۰۸ء سے جنوری ۲۰۰۹ء کے درمیان ہونے والی شادیوں اور طلاق کے واقعات کی تعداد حسبِ ذیل رہی: شادی کرنے والی خواتین کی تعداد ۰۰۰،۰۹، ۲۲ طلاق لینے والی خواتین کی تعداد ۰۰۰،۲۰،۱۲[2]
Flag Counter