Maktaba Wahhabi

310 - 322
عیسیٰ علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا: ’’تیرے ایمان نے تجھے بچالیا۔‘‘ بدکار لوگوں کے لیے معنوی سزا یہ ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کے وارث نہیں ہوسکتے۔ زنا کی طرف لے جانے والی باتوں سے سختی سے روکا گیا ہے۔ بُری خواہش سے اجنبی عورت کو دیکھنے پر آنکھ باہر نکال پھینکنے، حرام کاروں سے قطع تعلق اور بدکاروں سے خبردار ہونے کے احکامات دیے گئے۔ شراب سے دور رہنے کی تلقین اور زنا کے اندیشے کی بنا پر شادی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ج: اسلام کا موقف: زنا عقلی طور پر بہت ہی قبیح اور شدید سنگین حرکت ہے۔ اسے اسلام میں شروع ہی سے بُرا قرار دیا گیا اور آغازِ اسلام ہی سے اس پر سزا مقرر تھی، البتہ اس کی نوعیت اور کیفیت میں اضافہ اور شدت تدریجاً آئی۔ سب سے بڑے گناہوں کی ترتیب میں زنا تیسرا گناہ ہے۔ شرک، قتل ناحق اور اس سے بعد زنا کا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کو شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا۔ اسی بارے میں ان کی اعانت کے لیے انھیں نگاہیں جُھکانے کا پابند کیا۔ ہجرت کرکے آنے والی خواتین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن چھ چیزوں کا عہد لیتے، ان میں سے ایک [زنا سے اجتناب] تھا۔ انہی باتوں کا عہد روزِ عید خو اتین سے عید گاہ میں لیا گیا۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کی پابندی کرنے کا عہد لیا۔ [پاک دامنی] کے لیے آنحضرتa دعا کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سجدوں میں زنا سے پناہ طلب کیا کرتے تھے۔ نبی کریمa نے ایک صحابی کو [زنا سے پناہ مانگنے] کی دعا سکھلائی۔ [عباد الرحمن] کا ایک وصف [زنا سے دور رہنا] ہے۔ فلاح یافتہ اہلِ ایمان اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ایسے نہ کرنے والے [قابلِ ملامت اور حد سے تجاوز کرنے میں انتہا کو
Flag Counter