Maktaba Wahhabi

64 - 322
اسلام میں شروع دن سے ہی حرام قرار دیا گیا۔ یہ بات، بلاشک و شبہ، اسلام کی نظر میں اس گناہ کی شدید سنگینی اور اس کے بہت بڑا جرم ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اسلامی شریعت میں زنا کے حوالے سے تدریج کا تعلق اس کی سزاؤں سے تھا، اس کی حرمت میں قطعاً کوئی تدریج نہ تھی۔ علاوہ ازیں سزاؤں میں تدریج ان کی نوعیت و کیفیت میں تھی، سزا کے ہونے، نہ ہونے سے اس کا کوئی علاقہ نہ تھا، کیونکہ جس طرح زنا کی حرمت آغازِ اسلام سے تھی، اسی طرح اس پر سزا بھی شروع ہی سے تھی۔ {وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا۔ وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْہُمَا فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔}[1] [تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں۔ ان پر اپنے میں سے چار اشخاص کی شہادت طلب کرو۔ سو اگر وہ گواہی دے دیں، تو انھیں گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ موت انھیں اٹھا لے جائے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور سبیل نکال دیں۔ اور جو دو مرد تم میں سے (بدفعلی) کریں، تو ان دونوں کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ دونوں توبہ کرلیں اور (اپنی) اصلاح کرلیں، تو ان سے اعراض کرلو۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد توبہ قبول کرنے والے نہایت مہربان ہیں۔] علامہ ابوبکر جصاص پہلی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’سلف میں اس بارے میں (کوئی) اختلاف نہ تھا، کہ ابتدائے اسلام میں یہ زانیہ کی حد تھی۔‘‘[2]
Flag Counter