Maktaba Wahhabi

182 - 532
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: ﴿أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ(٢٦٦)[1]۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو‘ جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں‘ اور اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے ننھے ننھے بچے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولا لگ جائے جس میں آگ بھی ہو‘ پس وہ باغ جل جائے‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ چنانچہ اس عمل صالح کی مثال میوہ جات سے بھر پور عظیم باغ کی سی ہے‘ تو کیا کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو یہ چاہے کہ ان میوہ جات اور اس عظیم باغ کا مالک ہو ‘ اور پھر ریاکاری کرکے اسے کلی طور پر مٹا دے‘ جبکہ وہ اس کا شدید حاجت مند بھی ہو؟اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(حدیث قدسی میں)اپنے رب سبحانہ وتعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’أنا أغنی الشرکاء عن الشرک،من عمل عملاً أشرک معي فیہ غیري ترکتہ وشرکہ‘‘[2]۔ میں شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہوں ‘ جس نے کوئی عمل کیا جس میں میرے علاوہ کسی اور کو شریک کیا تو میں اسے اور اس کے شرک(دونوں)کو ترک کردیتا ہوں۔ اور حدیث میں ہے: ’’إذا جمع اللّٰه الأولین والآخرین لیوم القیامۃ‘ لیوم لا ریب فیہ نادی منادٍ:من کان أشرک في عمل عملہ للّٰه أحداً فلیطلب ثوابہ من عند غیر اللّٰه،فإن اللّٰه أغنی الشرکاء
Flag Counter