Maktaba Wahhabi

474 - 532
(3)الفاظ(گفتگو):الفاظ کی حفاظت یہ ہے کہ کوئی لفظ بیکار نہ نکلنے پائے‘ بندہ وہی بات بولے جس سے اسے فائدہ اور دین میں خیرکی امید ہو‘ چنانچہ جب کوئی بات کہنا چاہے تو پہلے غور کرلے کہ اس میں کوئی فائدہ ہے کہ نہیں؟ اگر اس میں فائدہ نہ ہو تو اس سے باز رہے‘ اوراگر اس میں فائدہ ہو تو دیکھے کہ کیا اس کے نتیجہ میں کوئی اس سے زیادہ فائدہ مند بات تو فوت نہیں ہوتی‘(اگر ایسا ہوتو)اسے اس کے بدلے ضائع نہ کرے‘ اور اگر آپ دل کی باتوں کا پتہ لگانا چاہیں تو زبان کی حرکت سے پتہ لگائیں کیونکہ زبان آپ کو دل کی باتوں کا پتہ دے گی خواہ جس کے دل کا آپ پتہ لگانا چاہتے ہیں وہ چاہے یا نہ چاہے‘ اسی لئے یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’سینوں میں دل کی مثال جوش مارتی ہوئی ہانڈیوں کی طرح ہے‘ زبانیں ان کی کفگیر ہیں‘ لہٰذا آدمی کے بولنے تک انتظار کرو کیونکہ زبان تمہیں اس کے دل میں جو کچھ میٹھا‘ کھٹا‘ تلخ و شیریں ہوگا نکال کر دے دے گی ‘ اس کے زبان کی کفگیر تمہیں اس کے دل کے مزاج کی خبر دے گی‘‘[1]۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ اپنی زبان سے ہانڈیوں کے کھانے کا مزہ چکھتے ہیں اور آپ کو اس کی حقیقت کا علم ہوتاہے اسی طرح آپ آدمی کی زبا ن سے اس کے دل کا حال معلوم کرسکتے ہیں‘ چنانچہ جس طرح آپ اپنی زبان سے برتن کا مزہ چکھتے ہیں اسی طرح آدمی کی زبان سے اس کے دل کا مزہ چکھ سکتے ہیں[2]۔ لہٰذا انسان کو چاہئے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ‘ کیونکہ سب سے زیادہ جو چیز انسان کو جہنم میں داخل کرتی ہے وہ منہ اور شرمگاہ ہے‘ اور زبان لوگوں کو ان کی ناک کے بل جہنم میں ڈھکیل دیتی ہے‘ بسا اوقات آدمی کوئی بات کہتا ہے جس کی پروا نہیں کرتا لیکن وہ اسے مشرق ومغرب سے بھی دور جہنم میں ڈھکیل دیتی ہے‘ یا اس کے سبب وہ ستر برسوں کے لئے جہنم رسید ہوجاتا ہے‘ یا اللہ کی ناراضگی کی کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کے بھیانک انجام کا اسے احساس و گمان بھی نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں قیامت تک کے لئے اس سے اپنی ناراضگی لکھ دیتا ہے۔ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والا شخص یا توبھلی بات کہتا ہے یا خاموش رہتا ہے‘ اور جب اس کا اسلام سنور جاتا ہے تو وہ ضرورت ہی کی بات کہتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان پر سب سے زیادہ زبان ہی کا خوف
Flag Counter