Maktaba Wahhabi

475 - 532
کھاتے تھے‘ اور بنی آدم کی کوئی بھی بات اس کے حق میں نہیں ہوتی ہے سوائے بھلائی کا حکم دینے یا برائی سے روکنے یا اللہ کے یاد کرنے کے۔ گفتگو تمہاری اسیر(قیدی)ہوتی ہے ‘ اور جب تمہارے منہ سے نکل جاتی ہے تو تم اس کے اسیر ہوجاتے ہو‘ اور کسی کی کوئی بات بھی اللہ عزوجل سے مخفی و پوشیدہ نہیں،اللہ کا ارشاد ہے: ﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ(١٨)[1]۔ (انسان)منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا کہ اس کے پاس ایک نگراں حاضر ہوتا ہے۔ زبان میں دو بڑی آفتیں ہیں ‘ اگر انسان ان میں ایک سے چھٹکارا پالیتا ہے تو دوسرے سے نہیں پاتا:ایک بولنے کی آفت اور دوسری خاموش رہنے کی‘ چنانچہ باطل بات کہنے والا شیطان ‘ اللہ کا نافرمان ہوتا ہے اور حق بات سے خاموش رہنے والا اللہ کا نافرمان گونگا‘اور اگر اپنی ذات پر نہ ڈرے تو ریاکار ‘ بے غیرت شیطان ہے،البتہ اعتدال پسند اہل حق اپنی زبانوں کو باطل سے روکتے اور اپنے حق میں نفع بخش اور سود مند چیزوں میں استعمال کرتے ہیں۔بندہ قیامت کے روز پہاڑوں کے مثل نیکیاں لے کر آئے گا لیکن اس کی زبان ان نیکیوں کو ملیامیٹ کردے گی اور پہاڑوں کے برابر برائیاں لے کر آئے گا لیکن اس کی زبان اللہ کے ذکر اور اس سے متعلقہ امور کی انجام دہی کے سبب ان تمام برائیوں کو مٹادے گی[2]۔ (4)قدم(چلناپھرنا):قدموں کی حفاظت یہ ہے کہ بندہ اپنے قدم کو انہی چیزوں میں حرکت دے جس میں ثواب کی امید ہو،چنانچہ اگر اس کے قدم میں ثواب کا اضافہ نہ ہو تو اسے روکے رکھنا ہی اس کے لئے بہتر ہے‘ اور اس کے لئے ممکن ہے کہ اللہ کے تقرب کی نیت سے اپنے قدم سے ہر جائز ومباح چیز سے بھی نکل جائے تاکہ نیک نیتی کے سبب اس کے سارے قدم اللہ کی قربت ہی میں واقع ہوں[3]۔ اللہ عز وجل نے اپنے بندوں کو ان کی باتوں اور قدموں میں استقامت کے وصف سے متصف فرمایا ہے،ارشاد ہے:
Flag Counter