Maktaba Wahhabi

86 - 532
اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:’’کحواصل الحمام‘‘ کا مطلب ہے،یعنی کبوتر کے سینہ کی مانند،عام طور پر،کیونکہ بعض کبوتروں کے سینے سیاہ نہیں ہوتے[1]۔ کالے خضاب کی قباحت پر بعض سلف جو کالا خضاب لگایا کرتے تھے،ان کا درج ذیل قول بھی دلالت کرتا ہے: نســود أعــلاھــا وتـأبی أصــولھا ولا خیر في الأعلی إذا فسد الأصل[2] ہم بالوں کے اوپری حصہ کو سیاہ کرتے ہیں،جبکہ ان کی جڑیں یونہی رہتی ہیں،اور جب اصل(جڑ)ہی خراب ہوتو اوپری حصہ میں کوئی بھلائی نہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’صحیح بات یہ ہے کہ اس باب کی حدیثوں میں کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کی سفیدی کے بدلنے کے تعلق سے جن باتوں سے منع فرمایا ہے وہ دو چیزیں ہیں: ایک اسے اکھیڑنا،اور دوسرے اس میں کالا خضاب لگانا۔ اور جن چیزوں کی اجازت دی ہے وہ اسے رنگنا اور کالے خضاب کے علاوہ جیسے مہندی اور کتم وغیرہ سے اسے بدلنا ہے،حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی عمل رہا ہے۔۔۔رہا کالا خضاب تو اسے اہل علم کی ایک جماعت نے ناپسند کیا ہے،اور سابقہ دلائل کی روشنی میں بلا شبہ یہی درست بھی ہے،امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:کیا آپ کالا خضاب ناپسند کرتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا:ہاں اللہ کی قسم! یہ ان مسائل میں سے جن پر انھوں نے قسم کھائی ہے،اور اس مسئلہ میں کچھ لوگوں نے رخصت دی ہے،ان میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متبعین ہیں،اور حسن،حسین،سعد بن ابی وقاص،عبد اللہ بن جعفر اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے بھی یہی مروی ہے،لیکن ان حضرات سے اس کا ثبوت محل نظر ہے،اور(بالفرض)اگر ثابت بھی ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کسی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سب سے زیادہ مستحق اتباع ہے،
Flag Counter