Maktaba Wahhabi

93 - 532
کو کہتے ہیں جس کا اوپری حصہ کشادہ ہو بشرطیکہ اس میں ٹونٹی اور دستانہ ہو،اور اگر دستانہ نہ ہو تو انہیں ’’اکواب‘‘ کہاجاتا ہے‘‘[1]۔ چنانچہ جب دل پلٹ جائے گا تو اس پر معروف ومنکر گڈ مڈ ہو جائیں گے اور بسا اوقات بیماری اس پر قابو پالے گی تو وہ معروف کو منکر اور منکر کو معروف،سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت،حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھے گا اور اس بنا پر وہ اپنی خواہشات نفس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر حکم اور فیصل مانے گا اور اس کا تابع فرمان اور پیروکار ہوگا۔اور دوسرا دل سفید ہوگا اس میں ایمان کا نور اور اس کے دیئے روشن ہوں گے،جب اس پر فتنہ لاحق ہوگا تو وہ اس کا انکار کرے گا اور ٹھکرا دے گا جس سے اس کے نور،روشنی اور قوت میں مزید اضافہ ہوجائے گا،ایمان کی گرہوں پر اس کی اسی گرفت،شدت اور خلل سے سلامتی کے سبب اسے اس چکنے پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جس پر کوئی چیز نہیں لگتی،چنانچہ اس دل پر فتنے لاحق نہ ہوں گے نہ ہی اس پر ان کا کوئی اثر ہوگا برخلاف سیاہ مٹیالے دل کے،’’مرباد:اس رنگ کو کہتے ہیں جو سفیدی،سیاہی اور گدلے پن کے مابین راکھ کے رنگ کے مثل ہوتا ہے‘‘[2]،یہ سیاہ اور پلٹا ہوا دل ہے جس میں کوئی بھلائی یا حکمت اثر انداز نہیں ہوتی ہے،اسی لئے اس کی تشبیہ اس الٹے پیالہ سے دی گئی ہے جس میں پانی نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کے دل میں ہر گناہ کے سبب تاریکی چھاگئی ہے اور وہ فتنوں کی آغوش میں چلا گیا ہے نیز اس سے اسلام کا نور زائل ہوچکا ہے،اور دل آبخورے کی مانند ہے کہ جب وہ پلٹ جاتا ہے تو اس میں موجود شے انڈل جاتی ہے اور اس کے بعد پھر کوئی شے اس میں داخل نہیں ہوسکتی[3]۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ فتنے جو دلوں کو لاحق ہوتے ہیں وہ در اصل دلوں کی بیماری کے اسباب ہیں،یہ شہوات،شبہات،ضلالت وگمراہی اور گناہوں کے فتنے ہیں،اور بدعات ظلم وجہالت کے فتنے ہیں،پہلا قصد وارادہ کی خرابی کاموجب ہے اوردوسرا علم وعقیدہ کی خرابی کا موجب ہے‘‘[4]۔
Flag Counter