Maktaba Wahhabi

184 - 211
’’سب سے بہترین نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے چاہنے والوں کو ملائے رکھے۔‘‘[1] الغرض اولاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین، آبا و اجداد اور فوت شدگان کے لیے برابر ایصالِ ثواب کرتے رہیں۔عام مسلمانوں نے ایصالِ ثواب کے نام پر بدعات و خرافات کی بھرمار کر رکھی ہے۔قل، ساتا، دسواں، بیسواں، چہلم، برسی، تیجا اور اس جیسی بے شمار رسومات کا بازار گرم کیا ہوا ہے، جبکہ ایصالِ ثواب کا مسنون طریقہ صرف وہی ہے، جس کی سرورِ کائنات جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ حسنہ سے ہمیں تعلیم دی ہے، اور وہ یہ کہ فوت شدگان کے نام پر صدقہ و خیرات کیا جائے، صدقہ جاریہ مثلاً:مسجد، مدرسہ بنایا جائے، کنواں کھدوایا جائے اور ٹیوب ویل یا سبیل لگائی جائے اور یہ سب بغیر کسی دن کی تعیین کے ہو۔ 4 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آکر عرض کیا اے اللہکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ((إِنَّ أُمِّيْ تُوُفِّیَتْ وَلَمْ تُوْصِ، أَفَیَنْفَعُہَا أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْہَا؟)) ’’میری والدہ وفات پاگئیں اور انھوں نے اپنی جانب سے(صدقہ و خیرات کرنے کی)کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کردوں تو کیا انھیں اس کا فائدہ ہوگا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((نَعَمْ))[2] ’’ہاں ہوگا۔‘‘ 5 کنواں کھدوایا جائے یا پانی کی سبیل لگائی جائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
Flag Counter