Maktaba Wahhabi

196 - 211
اور ان سے انکساری کے ساتھ پیش آئیں، کیونکہ والدین ہی کی طرح بچوں پر جن کا احسان ہوتا ہے، ان میں سے سب سے زیادہ اہم اساتذہ ہیں، جن کے سامنے بچے زانوے تلمذ تہ کرتے ہیں اور ان سے علم و ادب اور اخلاق و کردار سیکھتے ہیں۔انبیا علیہم السلام فی الحقیقت انسانیت کے معلم تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی راہنمائی وہ عظیم فریضہ ہے، جس کا حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو مکلّف کیا گیا تھا، اس لیے جس طرح انبیا علیہم السلام کا اس حیثیت سے تقدس مانا ہوا ہے کہ وہ انسانیت کے ہادی اور راہنما تھے، بالکل اُسی طرح اساتذہ کرام بھی قابلِ تعظیم و تکریم ہیں کہ وہ ایک نسل کی زندگی سنوارتے اور ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ سلفِ صالحینِ امت اپنے علما و اساتذہ کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آتے تھے، جس کا اندازہ کئی واقعات سے کیا جاسکتا ہے: 1 حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے شیخ و استاذ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بڑے ادب و تواضع سے ان کی سواری کی لگام پکڑے کھڑے تھے، اس پر حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برادرِ عم زاد! لگام چھوڑ دیں۔‘‘ اس پر انھوں نے کہا: ’’ہمیں اسی طرح اپنے علما کا ادب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اب حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا:’’مجھے اپنا ہاتھ دکھائیں۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ چوم لیا اور کہا: ’’ہمیں اسی طرح اہلِ بیت کا ادب و احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter