Maktaba Wahhabi

128 - 236
یہ بالکل اسی قسم کا فقرہ ہے جو ہمارے بریلوی حضرات فرماتے ہیں۔ ہم اہل قبور اور خانقاہوں کو مستقل بالذات خدا نہیں سمجھتے بلکہ ان کو خدا کے نائب یا مجاز سمجھتے ہیں۔ پھر ادب، وسیلہ، شفاعت وغیرہ عنوانات کے ماتحت شرک کی شاہراہیں کھول دی جاتی ہیں۔ آپ اپے دروس میں دیکھیں۔ آپ حضرات ہمیشہ نصوص کی تاویل فرماتے ہیں۔ ائمہ کے ارشادات اپنے مقام سے کبھی نہیں ہٹتے۔ اطاعت در اصل ائمہ کی ہوئی۔ پیغمبر تو قیامت کے دن سوچیں گے کہ نصوص کی ان حضرات نے کس طرح مرمت فرمائی اور اس تکلف میں امام کے ارشادات تو اپنی جگہ رہے۔ تاویل کا جنجر احادیث اور نصوص پر چلا۔ اس لئے مستقل بالذات کا تکلف فرماتے تو بہتر ہوتا۔ ع زمن بر صوفی وملاّ سلامے کہ پیغامِ خدا گفتند مارا دلے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا وجبریل ومصطفیٰ را رہا آسان اور مشکل کا مسئلہ تو یہ دونوں چزیں اضافی ہیں۔ ہر مشکل میں نسبتاً آسانی پائی جاتی ہے اور ہر آسانی میں مشکل کے پہلو پائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے اس تقسیم کا تقلید پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑے گا نہ ہی اس قسم کی تشکیک کسی حقیقت کے لئے معیار بن سکتی ہے۔ بقول مولانا کے قرء کے معنی حیض بھی ہے اور مچھر بھی۔ زمین کی بٹائی بھی۔ بعض ائمہ اسے جائز سمجھتے ہیں بعض اسے نا درست فرماتے ہیں۔ فاتحہ کے متعلق دو احادیث کا محمل صحیح ملنا مشکل ہے۔ حدیث من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة کا مفاد یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے اور لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب کا مطلب یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھی جائے۔ اس میں اشکال ہے۔ حدیث کی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں تقلید نے کیا سہولت پیدا کی۔ قرء کے دو معنیٰ سے اپنی لا علمی اور دوسرے بزرک پر اعتماد کرکے آپ نے اس کا معنی حیض سمجھ لیا۔ شوافع نے امام شافعی پر اعتماد فرما کر اپنی لا علمی کے بہانہ سے اس کا معنی مچھر سمجھ لیا۔ اس سے نہ آیت کا معنیٰ صاف ہوا نہ کوئی لغوی مشکل ہوئی۔ بلکہ حضرات احناف اور شوافع دونوں مضبوط مورچوں میں بیٹھ گئے
Flag Counter