Maktaba Wahhabi

140 - 236
صدره قال الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله يرضى به رسول الله (أعلام الموقعين ص74 طبع هند) ’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ سے دریافت فرمایا تم پیش آمدہ جھگڑوں میں کیسے فیصلہ کرو گے۔ انہوں نے اپنا طریق بتایا کہ میں پہلے قرآنِ عزیز کی طرف رجوع کروں گا پھر سنت کی طرف، پھر اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا۔ اس کا تعلق حکم اور قضاء سے ہے افتاء سے نہیں۔ تقلید کا تعلق بظاہر افتاء سے ہے۔ ابن قیم فرماتے ہیں: قد جوز النبي صلی اللہ علیہ وسلم للحاكم أن يجتهد برأيه وجعل له خطأه في اجتهاده أجرا (أعلام ص71) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرے پھر آپ نے تقلید کی جو تعریف فرمائی ہے ہر مسئلہ میں اس کی رائے پر پابند ہونا مرقوم ہے، یہاں اس کا ذکر نہیں۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اجتہاد اور رائے کے متعلق اہل یمن کیا طریق عمل اختیار کریں۔ اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حرف بھی ارشاد نہیں فرمایا۔ قضاء کی صورت میں رفع نزاع کے لئے حاکم کا حکم قبول کرنا ہوگا۔ مگر اس کے خلاف اپیل دوسرے علماء کی طرف جرجوع؟ تو اس سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اثر میں قطعاً نہیں روکا گیا۔ حضرت معاذ کا دوسرا اثر اسے واضح کرتا ہے۔ حضرت معاذ فرماتے ہیں: فتنے ہوں گے۔ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن اس پر عمل نہیں کریں گے۔ فيتخذ مسجدا ويبتدع كلاما ليس من كتاب الله ولا من سنة رسول الله فإياكم وإياه فإنه بدعة وضلالة قاله معاذ ثلاث مرات (أعلام ج1 ص21) پھر ایک مسجد بنائے گا اور اس میں نئی باتیں کرے گا جو نہ قرآن میں ہیں نہ سنت میں تم اس سے بچنا یہ بدعت اور گمراہی ہے۔ معاذ نے یہ کلمات تین بار فرمائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ معاذ قضاء کے بغیر رائے کو بدعت سمجھتے ہیں۔ حکم اور قضاء کی مجبوریوں کے علاوہ رائے کا استعمال حضرت معاذ کے نزدیک بدعت ہے۔ حضرت! قرونِ خیر میں تقلید کا مطلب یہ
Flag Counter