Maktaba Wahhabi

157 - 236
قیامِ رمضان بداہۃً معلوم ہے قیام رمضان مع وتر 9 ۔ 11 ۔ 13 کا ذکر صحیح احادیث میں موجود ہے۔ بیس یا اس سے زیادہ کا تذکرہ کسی صحیح مرفوع حدیث میں نہیں آیا۔ بعض صحابہ، تابعین بیس، اڑتیس، اکتالیس رکعت تک پڑھتے رہے۔ نوافل کی کثرت مستحسن ہے۔ زیادہ کو کسی نے بُرا نہیں کہا۔ ابن ہمام رحمہ اللہ کی تطبیق آٹھ سنت نبوی اور باقی نوافل مناسب تطبیق ہے جس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ متاخّرین نے سنّتِ نبوی پر عمل کی بجائے ائمہ کے عمل کو سنت پر ترجیح دینے میں غلوّ سے کام لیا۔ کبھی تہجّد اور قیامِ رمضان کو الگ الگ فرمایا گیا۔ کبھی آٹھ رکعت کو بدعت اور غیر ثابت کہنے کی جسارت فرمائی گئی۔ بعض نے حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اعتراف کیا کہ نماز تو ایک ہی ہے۔ رمضان میں تراویح سے الگ تہجد ثابت نہیں۔ لیکن سنت صحابہ بیس ہے (مولانا سیّد انور شاہ صاحب) اس غلو اور پریشان خیالی میں حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی سے لے کر آج کے نو آموز طلبہ تک مبتلا ہیں۔ اکابر پرستی کے سوا اس کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بات واضح تھی۔ جس طرح بیس نوافل پر کوئی اعتراض نہ تھا آٹھ یا دس پر بھی اعتراض نہ کیا جاتاكل يعمل على شاكلته اس کے باوجود حضرت مولانا محمد تقی صاحب عثمانی کے ساتھ کچھ اور رفقا ایسے ہوں گے جو اکابر پرستی کے اس غلو کو طبعاً ناپسند فرماتے ہوں تو وہ یقیناً عموم آیت سے مستثنیٰ ہوں گے لیکن اس سے غالی حضرات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ عز بن عبد السلام فرماتے ہیں: ومن العجب العجيب أن الفقهاء المقلدين يقف أحدهم على ضعف مأخذ إمامه بحيث لا يجد لضعف ؟؟؟ وهو مع ذلك يقلده فيه ويترك من شهد الكتاب والسنة والأقيسة الصحيحة لمذهبهم جمودا على تقليد إمامه بل يتحيل لدفع ظاهر الكتاب والسنة ويتأولها بالتاويلات البعيدة الباطلة فضالا من مقلده. الخ (حجۃ اللہ ص124) یعنی یہ عجیب بات ہے کہ فقہاء مقلدین اپنے
Flag Counter