Maktaba Wahhabi

164 - 322
بن انس، عبد اللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق علیہما السلام کا قول (بھی) یہی ہے۔[1] ۴: حضراتِ احناف [جلاوطنی] کو بطورِ حد تسلیم نہیں کرتے۔ مولانا عبد الحی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں: جلاوطنی پر دلالت کرنے والی احادیث کے بارے میں احناف کے متعدد جواب ہیں: اوّل: یہ احادیث منسوخ ہیں، یہ بات ہدایہ کے مصنف اور دیگر حضرات کی ہے۔ دوئم: یہ حد کا حصہ نہیں، بلکہ تعزیر ہے۔ امامِ وقت چاہے، تو جلاوطن کرے اور چاہے، تو نہ کرے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے، کہ (امام) عبد الرزاق نے ابن مسیَّب کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب (پینے) پر خیبر جلاوطن کیا، تو وہ (شاہِ روم) ہرقل کے پاس چلا گیا اور (وہاں جاکر) نصرانی ہوگیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: [میں اس کے بعد کسی مسلمان کو جلاوطن نہیں کروں گا۔] دوسری دلیل یہ ہے، کہ (امام) محمد نے کتاب الآثار اور (امام) عبد الرزاق نے ابراہیم (النخعی) کے حوالے سے (حضرت) علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انھوں نے فرمایا: ’’حَسْبُہُمَا مِنَ الْفِتْنَۃِ أَنْ یُّنْفَیَا۔‘‘ ’’ان دونوں کے لیے یہ فتنہ بہت بڑا ہے، کہ انھیں جلاوطن کیا جائے۔‘‘ اگر [جلاوطنی] حدّ شرعی کا حصہ ہوتی، تو (حضرت) عمر اور (حضرت) علی رضی اللہ عنہما یہ نہ فرماتے۔ سوئم: جلاوطنی کے متعلقہ احادیث [اخبار آحاد] ہیں، ان کے ساتھ کتاب اللہ پر
Flag Counter