Maktaba Wahhabi

69 - 322
نفس] کے درمیان ذکر فرمایا ہے۔ قاضی ابوسعود نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے: ’’وَتَوْسِیْطُ النَّہِيْ بِاِعْتِبَارِ أَنَّہَا مَعَ کَوْنِہَا فِيْ نَفْسِہَا جِنَابَۃً عَظِیْمَۃً، فِيْ حُکْمِ قَتْلِ الْأَوْلَادِ، فَإِنَّ أَوْلَادَ الزِّنَا فِيْ حُکْمِ الْأَمْوَاتِ۔‘‘[1] ’’زنا اگرچہ فی نفسہ بہت بڑا جرم ہے، لیکن (یہاں) اس کی ممانعت کا (قتلِ اولاد اور قتلِ نفس) کے درمیان لانا، اس لیے ہے، کہ یہ بھی قتلِ اولاد کے حکم میں ہے، کیونکہ اولادِ زنا مردوں ہی کے حکم میں ہے۔‘‘ سیّد قطب لکھتے ہیں: [قتل اولاد] اور [زنا] میں باہمی تعلق اور مناسبت ہے۔ اسی تعلق اور مناسبت کی وجہ سے [زنا کی ممانعت] کو [قتلِ اولاد] اور [قتلِ نفس] کے درمیان لایا گیا ہے۔ بلاشک و شبہ زنا میں متعدد پہلوؤں سے قتل ہے۔ یہ تو آغاز ہی سے قتل ہے، کیونکہ اس میں مادہ حیات کو، اس کی (درست) جگہ کی بجائے دوسرے مقام میں گرایا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد جنین کو تخلیق سے پہلے یا بعد، اس کی پیدائش سے قبل یا بعد، قتل کرکے، اس کے اثرات سے خلاصی پانے کی رغبت کارفرما ہوتی ہے، اگر جنین کو زندہ رہنے دیا جائے، تو اسے شریر یا ذلت آمیز زندگی کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ یہ زندگی کسی نہ کسی طریقے سے برباد شدہ ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسری شکل میں بھی قتل ہے۔ یہ اس جماعت کا قتل ہے، جس میں زنا کے پھیلاؤ سے انساب ضائع اور خون خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ عزت، آبرو اور اولاد کے بارے میں اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جماعت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس کے روابط ٹوٹ جاتے ہیں اور (زنا کی برائی میں مبتلا) جماعت دیگر (انسانی) جماعتوں میں سے قریباً [موت کے کنارے کھڑی ایک جماعت] کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ وہ (یعنی زنا) جماعت کے لیے ایک اور پہلو سے (بھی) قتل ہے، کیونکہ شہوت کا،
Flag Counter