خلاصہ اس عبار ت کا یہ ہے کہ منجملہ حدود مصر کے ایک وہ ہے جس کو صاحب ہدایہ نے صحیح کہا ہے اور وہ ہے کہ مصر وہ موضع ہے جس میں امیر ہو اور ایسا قاضی ہو جو احکامِ شرعیہ کو جاری کرے اور حدود قائم کرے۔ اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ایسا قاضی جو احکام کو نافذ کرے کمیاب ہے ،بلکہ نایاب۔ اس واسطے کہ اکثر قضاۃ قضا کو روپیہ دے کر لیتے ہیں۔ اور ایسے قاضی کے صحتِ تقلید میں اختلاف ہے۔ پھر اکثر قاضی رشوت لیتے ہیں اور ایسے قاضی کے معزول ہو جانے میں اختلاف ہے،مگر اس پر اتفاق ہے کہ وہ مستحق معزولی ہو جاتے ہیں۔ پھر اکثر ان میں احکام شرعیہ کی تنفیذ نہیں کرتے یا تو اس سبب سے کہ وہ جاہل ہیں یا ان کو اس طرف التفات ہی نہیں ہے۔ اور ان میں فسق پایا جاتا ہے۔ اور بالفرض ان قاضیوں میں اگر کوئی ایسا قاضی پایا جائے جو اوصاف قضائء کے ساتھ متصف ہو اور وہ احکام کو نظام اسلام پر جاری کرنا چاہے۔ تو امراء وحکام اسے روکیں گے۔ اور امور دین میں احتیاط کرنا متقین کی عادات سے ہے۔ انتہٰی دیکھو ملا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس تعریف کے غیر معتبر ہونے کی کتنی وجہیں نکالی ہیں۔ صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس تعریف کی تزئیف کی ہے۔ آ پ شرح وقایہ میں فرماتے ہیں: وانما اختار ھذا دون المتفسیر الاول لظھور التوانی فی احکام الشرع لا سیما فی اقامۃ الحدود فی الامصار انتھٰی ’’صاحب وقایہ نے جو تفسیر (یعنی وہ تعریف جس کو صاحب ہدایہ نے اختیار کیا ہے) چھوڑ کر یہ تعریف (یعنی مصر وہ مقام ہے جہاں کے مکلف اس قدر ہوں کہ وہاںں کی اکبر مساجدیں ان کی گنجائش نہ ہو سکے) اختیار کیا۔ سو اس کی فقط یہی وجہ ہے۔ کہ احکامِ شرح میں عموم اور اقامت حدود میں خصوصاً سستی ہو گئی ہے۔ مولانا عبد العلیٰ بحر العلوم نے بھی ارکان اربعہ میں اس تعریف کی خوب تردید کی ہے۔ مولانا کی عبارت دوسری تعریف کے جواب میں آتی ہے۔ اکثر فقہاء وجمہور متاخرین کے نزدیک بھی یہ تعریف معتبر نہیں ہے۔ ورنہ یہ لوگ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |