اور اس روایت کے متعلق شارحین بخاری کے اقوال بھی سن چکے تو اب مولوی شوق صاحب کے اس قول کو کہ’’چوبیس روز قیام قبا کی نسبت کسی کتاب حدیث میں کوئی روایت ہر گز نہیں ہے۔‘‘ تطرعبرت سے دیکھو اور ان کے اس قول پر کہ ۔ ’’کہ ایک تو ۲۴ روز کی روایت گڑھی گئی اور اس پر حوالہ بھی کس کا دیا کہ بخاری کا۔‘‘اچھی طرح غور کرواور ان کے حال پر افسوس کرو اور انا للہ پڑھو۔ اور یہ بھی سو چو کہ جس شخص کی یہ حالت ہو وہ میرے رسالہ نور الابصار کا جواب کیا خاک لکھ سکی گا۔ مولوی شوق صاحب کی پہلی وجہ مولوی شوق صاحب نے جامع الاثار میں لکھا ہے۔موضع قبا مدینہ طبیہ سے تین کوس کے فاصلے پر ہے۔اے ناظرین !چونکہ موضع قبا کو تین کوس کی مسافت پر بتانا صریح غلطی ہے۔ اس وجہ سے میں نے نور الابصار میں اس کی تردید کی اور لکھا کہ یہ محض غلط ہے موضع قبا مدینہ سے صرف دو یا تین میل کے فاصلہ پر ہے اور اس کے ثبوت میں مجمع البحار کی یہ عبارت پیش کی قبا موضع بمیلین اوثلثۃ من المدینۃ ۔ اس پر شوق صاحب فرماتے ہیں۔(تعجب ہے کہ اس عبارت یعنی مجمع البحار کی عبارت میں تین میل موجود اور پھر بھی اعتراض) اور پھر لکھتے ہیں کہ (میں جو عربی لفظ ہے۔ اس کی فارسی کر وہ اور ہندی کوس ہے الی قولہ جب میل کی ہندی کوس ہے تو تین کوس لکھنا غلط کیونکر ہو گیا اور یہ امر آخر ہے کہ عبر کا کوس یہاں کے کوس سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔) یہاں ہمارے مولانا شوق کی لیاقت اور خوش فہمی قابلِ ملاحظہ ہے۔ آپ کو اس بات کا اقرار بھی ہے کہ عرب کا کوس (یعنی عرب کی میل ) یہاں کے کوس سے بہت چھوٹا ہوتا ہے اور پھر آپ موضع قبا کو (جو عرب کی میل سے دو میل یا تین میل کے فاصلے پر ہے) ہندی کوس سے تین کوس کے فاصلے پر بتاتے ہیں۔ ماشاء اللہ لیاقت ہو تو ایسی ہوا ور سمجھ ہو تو ایسی ہو۔ ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ اگر کسی نے عربی میل کی ہندی کوس لکھ دی تو اس لکھ دینے سے کیا عربی میل کی مسافت بھی بڑھ کر ہندی کوس کے برابر ہو جائے گی یا ہندی کو س گھٹکر عربی میل کے برابر ہو جائے گا۔ پھر اس لکھ دینے سے موضع قبا یہاں کے کوس سے تین کوس کے فاصلے پر کیونکر ہو جائے گا۔ ہم یہاں شوق صاحب کی اس |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |