کفیہ یعنی میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی۔ اس صور ت میں وکفی بین کفیہ کہنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ ونیز ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی غرض وکفی بین کفیہ سے اس حالت اور وضع کا بتانا ہے جس حالت اور وضع کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد کی تعلیم دی تھی۔پس اگر تعلیم تشہد کے وقت حالت یہ تھی کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھیں تو ابن مسعود وکفای بین کفیہ فرماتے کیونکہ خاص اس حالت پر لفظ وکفی بین کفیہ صراحۃً ونصاً دلالت نہیں کرتا۔ پس جب معلوم ہوا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قولِ مذکور میں ’’کفی‘‘ سے ان کی فقط ایک ہتھیلی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فق ایک ہتھیلی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی۔ تو ظاہر ہے کہ اس دلیل سے دونوں ہاتھ سے مصافحہ والوں کا دعویٰ کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ لوگ اس طرح کے مصافحہ کے قائل نہیں،بلکہ اس مصافحہ کے قائل ہیں ،جس میں دونوں جانب سے دو، دو ہتھیلیاں ملائی جائیں ۔ پس جوان لوگوں کا دعویٰ ہے۔ وہ اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا اور جو ثابت ہوتا ہے۔ وہ ان کا دعویٰ نہیں۔ دوسرا جواب اگر فرض کیا جائے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول مذکور میں لفظ ’’کفی ‘‘ سے ان کی فقط ایک ہتھیلی مراد نہیں ہے،بلکہ ان کی دونوں ہتھیلیاں مراد ہیں۔ تو اس تقدیر پر وکفی بین کفیہ کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھیں۔ بایں صورت لیکن جو لوگ دونوں ہاتھ سے مصافحہ کے قائل ہیں۔ وہ اس طرح کے مصافحہ کے قائل نہیں ہیں۔ پس جو ان لوگوں کا دعویٰ ہے وہ اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا اور جو ثابت ہوتا ہے وہ ان کا دعویٰ نہیں ۔ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |