نہیں ،بلکہ استحبابی ہے۔ یعنی غسل دینے والا غسل کر لے تو بہتر ہے ، اور اگر غسل نہ کرے تو کچھ حرج نہیں۔اور اسی طرح میت کا اٹھانے والا اگر پھر سے وضو کر لے تو بہتر ہے۔ اور اگر پھر سے وضو نہ کرے کچھ حرج نہیں۔ فقہائِ حنفیہ [1] کے نزدیک بھی غسل دینے والے کو غسل کر لینا مستحب ہے۔ میت کے غسل دینے کا طریقہ میت کو غسل دینے کا ارادہ کریں تو اس کا کپڑا اتاردیں ۔ مگر بدن کا جتنا حصہ زندگی کی حالت میں چھپانا ضروری ہے اس کو بے ستر نہ کریں، پھر ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر اس کا استنجا کرائیں اور بدن پر کہیں نجاست ہو تو اس کو بھی پاک کریں، پھر وضو کرائیں اور سر اور داڑھی میں بال ہوں تو خطمی سے یا کسی اورصاف کرنے والی چیز سے دھوئی ، اوراگر میت عورت ہو تو اس کے سر کی چوٹیوں کو کھول کر اس کا سر د ھوئیں ،پھر تین بار پائی اور بیری کے پتوں سے غسل دیں،ا ور اخیر بار پانی میں کافور ملائیں، اگر تین بار سے زیادہ غسل دینے کی ضرورت معلوم ہو تو پانچ بار غسل دیں یا پانچ بار سے بھی زیادہ، مگر طاق ہونا چاہیے، اور غسل دینے میں دا ہنی طرف سے شروع کریں۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر داخل ہوئے اور فرمایا کہ ان کو غسل دو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ اگر تم کو ضرورت معلوم ہو،[2] اور اخیر غسل میں کافرور ڈالو۔ایک اور روایت میں ہے کہ ان کی دا ہنی طرف سے اور وضو کی جگہوں سے شروع کرو۔(بخاری ومسلم) |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |