سوال ہو گا۔ حاکم(کذانی بلوغ المرام) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، مسلم میں حضرت عمروبن عاص سے روایت ہے کہ انھوں نے جان کنی کے وقت اپنے بیٹے عبد اللہ سے کہا جب میں مر جاؤں تو میرے جنازہ کے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی عورت نہ جائے اور نہ میرے جنازہ کے ساتھ آگ جائے اور جب مجھ کو دفن کرنا تو سہولت اور آہستگی سے مجھ پر مٹی گرانا، پھر میری قبر کے پاس اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیرمیں اونٹ ذبح کیا جاتا ہے۔ اور اس کا گوشت تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ مجھے تم لوگوں کی وجہ سے انسیت ہو اور میں جان لوں کہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے کویعنی منکر ونکیر کو کیا جواب دیتا ہوں۔ فقہائِ حنفیہ لکھتے ہیں (دیکھو درمختار مع ردالمحتار :ص۹۳۶ج۱،طحطاوی) کہ دفن کے بعد دعا اور قرا ء ت قرآن کے لیے قبر کے پاس اتنی دیر تک ٹھہرنا مستحب ہے جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسم کیا جائے۔ فوائد متفرقہ فائدہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سنا کہ فرماتے تھے ، جب کوئی مر جائے تو اس کو رو کو نہیں اور تیزی اور سرعت کے ساتھ اس کو قبر کے پاس پہنچاؤاور اس کی قبر کے سر کے پاس سورۂ بقرہ کا شروع یعنی الم سے مفلحون تک اور اس کے پیر کے پاس سورۂ بقرہ کا آخری یعنی آمن الرسول سے آخر سورہ تک پڑھنا چاہیے ، روایت کیا اس کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور کہا کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ فائدہ: قبر کے پہچاننے اور اس کے معلوم ہونے کے لیے قبر کے سرہانے کوئی بھاری پتھر رکھ دینا یا گاڑدینا جائز ودرست ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی غرض سے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہ کی قبر کے سر ہانے ایک بھاری پتھر رکھ دیا تھا۔(یہ حدیث ابو داود میں ہے۔) فائدہ: قبر کو پکی کرنا ، اس پر عمارت بنانا، اس پر چراغ جلانا، اس پر بیٹھنا ، اس پر ٹیک لگانا، اس پر چلنا، اس پر لکھنا، اس کی طرف نماز پڑھنا ، یہ سب باتیں ممنوع وناجائز ہیں، احادیث صحیحہ سے ان باتوں کی ممانعت ثابت ہے۔ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |