دوسرا باب غسلِ میت کے بیان میں شہید کے سوا ہر میت کو غسل دینا ضروری ہے، شہید کو بغیر غسل کے اس کے کپڑوں میں مع خون کے دفن کرنے کا حکم ہے، ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : ’’ جو شخص میت کو غسل دے اور چھپائے یعنی اس بات کو چھپائے جو ظاہر کرنے کے قابل نہ ہو، تو اس کے چالیس کبیرہ گناہ بخشے جاتے ہیں۔‘ [1] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میت کو غسل دے اور غسل دینے میں امانت کو ادا کرے، یعنی شرعیت کے مطابق غسل دے اور کوئی مکروہ وناقابلِ ذکر بات اس سے معلوم ہو ،تو اس کو ظاہر نہ کرے۔ پس وہ شخص اپنے گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے کہ اس کی مان نے جس دن اس کو جنا تھا۔ اور چاہیے کہ میت کو اس کے قرابت مند غسل دیں، جو قررابت میں زیادہ قریب ہوں، بشرطیکہ ان کو غسل دینے کا طریقہ معلوم ہو، اور اگر نہ معلوم ہو، تو وہ لوگ غسل دیں جو پرہیز گار اور امانت دار ہوں(مسند احمد) لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔(نیل الاوطار:ص۲۷ج۴) ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ میت کو غسل دینا بہت بڑے ثواب کا کام ہے ، اور یہ بھی معلوم ہے کہ میت کو اس کے قرابت مند لوگ غسل دیں جو قرابت میں زیادہ قریب ہوں، اور اگر ان کو غسل دینے کا طریقہ معلوم نہ ہو تو دوسرے لوگ غسل دیں جو دیندار اور پرہیز گار ہوں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے موطا (ص۷۷) میں لکھتے ہیں کہ ’’انھوں نے اہلِ علم سے سنا کہ جب کوئی عورت مر جائے اور وہاں عورتیں موجود نہ ہوں جو اس کو غسل دیں اور نہ اس کا ذومحرم ہو اور نہ اس کا شوہرہو، جو اس کو غسل دے تو وہ عورت تیمم کرائی جائے۔ پس اس کا منہ اور دونوں ہتھیلیاں پاک مٹی سے ملی جائیں۔ اور جب کوئی مرد مر جائے اور وہاں بجز عورتوںں کے کوئی مرد نہ ہو تو عورتیں اس کو تیمم کرائیں‘‘ اس بارے |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |