Maktaba Wahhabi

171 - 277
دونوں ہاتھ یا بایاں ہاتھ مراد لینا ہر گز ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اور اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مگر یہی کہ بعض احادیث قطع ید میں داہنے ہاتھ کی تصریح آئی ہے۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں فاقطعوا ایما نھما واقع ہے۔ الحاصل مسلمان کی حدیث مذکور سے تمام ان احادیث سے جن میں لفظ ’’ید‘‘ معرف بہ لام یا مضاف واقع ہوا ہے۔ ایک ہی ہاتھ سے مصافحۃ کا مسنون ہونا ثابت ہوتا ہے اوران احادیث سے دونوں ہاتھ سے مصافحہ کے مسنون ہونے کا دعویٰ کرنا ناواقفی یا تعصب پر مبنی ہے۔ تیرہویں روایت جامع ترمذی (ص۹۷ج۲ )میں ہے عن البراء بن عازب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من مسلمین یلتقیان فیتصافحان الا غفر لھما قبل ان یتفرقا۔ قال الترمذی ھذا حدیث حسن غیریب یعنی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب دو مسلمان باہم ملاقات کرتے ہیں پس مصافحہ کرتے ہیں تو قبل اس کے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا ہوں ان دونوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔ کہا ترمذی نے یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس حدیث سے اور اس کے سوا تمام ان احادیث سے جن میں مطلق مصافحہ کا ذکر ہے اور ’’ید‘‘ اور ’’کف‘‘ کی تصریح نہیں ہے۔ ایک ہی ہاتھ کا مصافحہ ثابت ہوتا ہے اور ان احادیث سے دونوں ہاتھ کے مصافحہ کا ثبوت نہیں ہوتا اس واسطے کہ اہلِ لغت اور شراحِ حدیث نے مصافحہ کے جو معنی لکھتے ہیں۔وہ دونوں ہاتھ کے مصافحہ پر صادق نہیں آتے اور ایک ہاتھ کے مصافحہ پر جس طرح اہلِ حدیث میں مروج ہے ۔ بخوبی صادق آتے ہیں ۔ اب پہلے مصافحہ کے معنی سنو۔
Flag Counter