کہیں کہ وہ سنے اور یہ کلمہ اس کو یاد آجائے اورا س کو کہے، مگر ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ کہیں، لگاتا دیر تک نہ کہتے رہیں، اور نہ چلا کر شور وغل کے ساتھ کہیں، کیونکہ مریض پر جان کنی کا وقت نہایت نازک ہوتا ہے، ایسا نہ ہو کہ آزردہ خاطر ہو کر کہیں زبان سے کوئی ناملائم بات نکالے یا اس کے دل کو اس سے نفر ت ہو۔ مریض جب ایک بار لا الہ الا اللہ کہے ،تو پھر تلقین کی ضرورت نہیں، ہاں اس کلمہ کے بعد کوئی دوسری بات بولے تو پھر تلقین کرنا چاہیے، کہ وہ اس کلمہ کو پھر کہے اور س کا آخری کلمہ لا الہ الا اللہ ہو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کان اخر کلا مہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ۔(ابوداود:ص ۸۸ج۲، دھلی ) ’’فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ اور حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس بندہ نے لا الہ الا اللہ کہا ،پھر اسی پر مر گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔(مسلم:ص ۶۶ج۱) حضرت عبد اللہ بن مبارک جب قریب المرگ ہوئے، تو ایک شخص ان کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے لگا، اور اس کلمہ کو بار بار کہنے لگا، عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ جب میں اس کلمہ کو ایک بار کہہ لو ں تو میں اسی پر ہوں، جب تک کہ میں کوئی اور بات نہ بولوں۔(ترمذی :ص ۱۶۱)امام ترمذی لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک کی مراد وہ حدیث ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جو شخص کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یہاں مجھے ابو زرعہ محدث کا قصہ یاد آ گیا۔ حافظ ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب ابو زرعہ قریب المرگ ہوئے ،تو لوگوں نے ان کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہی، اور |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |