کے بائیں طرف کوئی نہ ہوتو بائیں طرف رکھے اور چاہیے، کہ اپنے دونوں پیروں کے درمیان رکھے، اور ایک روایت میں ہے کہ یا جوتیوںکو پہن کر نماز پڑھے۔ روایت کیا اس کو ابوداود نے، امام طحاوی حنفی شرح معانی الآثار (ص۲۹۴ج۱) میں لکھتے ہیں کہ اس بارے میں حدیثیں متواتر آئی ہیں کہ رسول اللہ کہ یا جوتیوں نے جوتی پہن کر نماز پڑھی ہے، پھر امام ممدوح نے اس بارے میں متعدد حدیثیں روایت کی ہیں، پھر آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’جوتی پہن کر نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔‘‘ مراہوا لڑکا پیدا ہو تو اس پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے، اور اگر زندگی کے کچھ آثار پائے جائیں مثلاً چھینکنا یا رونا یا حرکت کرناتو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا چاہیے۔ حضرت باجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے اور نہ وہ میراث پائے اور نہ کوئی دوسرا اس سے میراث پائے یہاں تک کہ وہ آواز دے ۔ روایت کیا اس کو ترمذی ،نسائی اور ابن ماجہ نے، اور صحیح کہا اس کو ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے(کذافی الدرایہ ص ۱۴۴)اس بارے میں اور بھی حدیثیں آئی ہیں جو اس حدیث کو تائید کرتی ہیں، اس حدیث میں لڑکے آواز دینے سے مطلب یہ ہے کہ اس میں زندگی کی کوئی علامت پائے جائے ،مثلا چھینکنا یا رونا یا حرکت کرنا۔ نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ میت اگر مرد ہو تو امام اس کے سر کے پاس کھڑا ہو ااور اگر عورت ہو تو امام اس کی کمر کے پاس کھڑا ہو، اور مقتدی لوگ اس کے پیچھے صف باندھ کھڑے ہوں، بہتر یہ ہے[1]کہ تین صفیں کر لیں،پھر امام اور نمازوں کی طرف دونوںہاتھوں کو اپنے مونڈھوں یا کانوں تک اٹھائے اور بآواز بلند کہے اللہ اکبر ، پھر ہاتھوں |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |