Maktaba Wahhabi

191 - 277
کو خواب میں دیکھا پس میں نے بیعت کی اور حضر ت صلعم نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اس لیے میں بیعت کے وقت دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرتا ہوں۔ اور جب بوقت بیعت دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلعم کا ثابت ہے اور افراد مصافحہ میں تخالف من حیث الاخذ بالید وبالیدین شرعاً ثابت نہیں تو یہیں سے ثابت ہو گیا ہے کہ مصافحہ تحیہ بھی دونوں ہاتھ سے کرنا چاہیے۔ جواب بجز صاحبِ عمدۃ القاری اور صاحبِ ارشاد الساری کے کسی محدث نے اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوقت بیعتِ رجال دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے۔ نہ امام بخاری و امام مسلم نے اس کی تصریح کی ہے اور نہ ترمذی وابوداود ونسائی وابن ماجہ نے اور نہ امام احمد بن حنبل وامام شافعی وامام مالک نے اور نہ دارقطنی وبیہقی نے اور نہ ان محدثین کے سوا کسی اور محدث نے ومن ادعیٰ خلافہ فعلیہ البیان رہے صاحبِ عمدۃ القاری یعنی علامہ عینی حنفی ۔ سوان کا عداد محدثین میں نہیں ہے اور لیکن صاحبِ ارشاد الساری یعنی علامہ قسطلانی۔ سو ظاہر یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اس قول میں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی تبعیت کی ہے کیونکہ قسطلانی نے ارشاد الساری میں عینی کی عمدۃ القاری میں سے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔ کمالا یخفی علی بزاھلیھما علاوہ بریں ان دونوں صاحبوں کا یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ انھوںنے اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں لکھی ہے۔ اورپہلے باب میں صحیح روایتوں سے بصراحت ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کے وقت ایک ہاتھ سے (یعنی داہنے ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے۔) پس بمقابلہ ان روایاتِ صحیحہ صریحہ کے علامہ عینی وقسطلانی کا دعویٰ بلادلیل کیونکر مقبول وسموع ہو سکتا ہے۔ اور ہاں یہ بھی واضح رہے کہ بیعت کے وقت ایک ہی ہاتھ یعنی داہنے ہی ہاتھ سے مصافحہ کرنے کی عادت بھی برابر جاری رہی ہے۔ جیسا کہ ملاعلی قاری حنفی نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس کی تصریح کی ہے۔ دیکھو پہلا باب۔
Flag Counter